Thursday, February 13, 2014

وضو میں پیر کا مسح کیوں؟ اور پورے پیر کا مسح کیوں نہیں؟

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع أَ لَا تُخْبِرُنِي مِنْ أَيْنَ عَلِمْتَ وَ قُلْتَ إِنَّ الْمَسْحَ بِبَعْضِ الرَّأْسِ وَ بَعْضِ الرِّجْلَيْنِ فَضَحِكَ ثُمَّ قَالَ يَا زُرَارَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ نَزَلَ بِهِ الْكِتَابُ مِنَ اللَّهِ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ- فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ فَعَرَفْنَا أَنَّ الْوَجْهَ كُلَّهُ يَنْبَغِي أَنْ يُغْسَلَ ثُمَّ قَالَ- وَ أَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرافِقِ ثُمَّ فَصَّلَ بَيْنَ الْكَلَامِ فَقَالَ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ فَعَرَفْنَا حِينَ قَالَ- بِرُؤُسِكُمْ أَنَّ الْمَسْحَ بِبَعْضِ الرَّأْسِ لِمَكَانِ الْبَاءِ ثُمَّ وَصَلَ الرِّجْلَيْنِ بِالرَّأْسِ كَمَا وَصَلَ الْيَدَيْنِ بِالْوَجْهِ فَقَالَ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ فَعَرَفْنَا حِينَ وَصَلَهَا بِالرَّأْسِ أَنَّ الْمَسْحَ عَلَى بَعْضِهَا ثُمَّ فَسَّرَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ ص لِلنَّاسِ فَضَيَّعُوهُ ثُمَّ قَالَ- فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ مِنْهُ فَلَمَّا وَضَعَ الْوُضُوءَ إِنْ لَمْ تَجِدُوا الْمَاءَ أَثْبَتَ بَعْضَ الْغَسْلِ مَسْحاً لِأَنَّهُ قَالَ بِوُجُوهِكُمْ ثُمَّ وَصَلَ بِهَا وَ أَيْدِيَكُمْ ثُمَّ قَالَ مِنْهُ أَيْ مِنْ ذَلِكَ التَّيَمُّمِ لِأَنَّهُ عَلِمَ أَنَّ ذَلِكَ أَجْمَعَ لَمْ يَجْرِ عَلَى الْوَجْهِ لِأَنَّهُ يُعَلَّقُ مِنْ ذَلِكَ الصَّعِيدِ بِبَعْضِ الْكَفِّ وَ لَا يَعْلَقُ بِبَعْضِهَا ثُمَّ قَالَ ما يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ وَ الْحَرَجُ الضِّيق


زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر ع سے کہا کہ آپ سر اور پیر کے مسح میں پورے سر اور پیر کا مسح ضروری نہیں سمجھتے بلکہ سر اور پیر کی ایک مقدار کو مسح کے لئے کافی سمجھتے ہیں، کیا آپ بیان کر سکتے ہیں کہ یہ حکم آپ نے کیسے اور کہاں سے بیان فرمایا؟

امام نے تبسّم فرمایا اور فرمانے لگے: "یہ وہ چیز ہے جس کی رسول اللہ ص نے تصریح کی اور کتاب خدا میں نازل ہوا۔ جیسا کہ اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہے "فاغسلو وجوھکم" یعنی اپنے چہروں کو دھو لو، اس سے ہم نے جانا کہ چہرے کو مکمّل دھونا لازمی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے ہاتھ دھونے کو چہرے پر عطف کیا اور فرمایا "وایدیکم الی المرافق" یعنی اپنے ہاتھ کو کہنیوں تک دھو لو (اللہ نے ہاتھ کے دھونے کے لئے الگ فعل کا ذکر نہیں کیا بلکہ چہرے کے فعل یعنی دھونے کا حکم یہاں برقرار رکھا تو ہم نے جانا کہ مکمّل ہاتھ کا کہنیوں تک دھونا لازمی ہے)۔

اس کے بعد اللہ نے کلام کے درمیان فاصلہ دیا اور کہا "وامسحو برؤوسکم" یعنی سر کا مسح کرو۔ برؤوسکم سے ہم نے جانا کہ سر کے کچھ حصّوں کا ہی مسح ہے کیونکہ یہاں حرف "باء" آیا ہے۔ (باء تبعیض کے لئے استعمال ہوتا ہے، اگر پورے سر کے مسح کا حکم ہوتا تو "وامسحو رؤوسکم" کہا جاتا)۔ پھر دونوں پیر کو سر کے حکم سے متّصل کیا جیسے ہاتھوں کو چہرے کے ساتھ وصل کیا تھا اور کہا "وارجلکم الی الکعبین" یعنی مسح کرو پیروں کا ان کے ابھار تک۔ پھر جیسا کہ پیروں کو سر سے وصل کیا تو اس کا مطلب ہوا کہ مسح بھی پیر کے بعض حصّوں کا ہی ہوگا (جیسے سر کے کچھ حصّوں کا ہی مسح تھا)۔ اس کے بعد رسول اللہ ص نے لوگوں کو (اس آیت کی) یہی تفسیر بتائی لیکن لوگوں نے آپ کے فرمان کو ضائع کر دیا۔"

(اصول کافی: ج3 ص30، تفسیر عیاشی ج1 ص299، من لا یحضرہ الفقیہ ج1 ص 103، علل الشرائع ج 1 ص279، تہذیب الاحکام ج1 ص61)


رجال الحدیث:


کافی میں یہ روایت ان اسناد سے نقل ہوئی ہے؛

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ

گویا اس کی دو اسناد ہوئیں؛

1) علی بن ابراھیم ---> ابراھیم بن ہاشم ---> حمّاد بن عیسی ---> 
حریز ---> زرارہ

2) محمد بن اسماعیل ---> فضل بن شاذان ---> حماد بن عیسی ---> حریز ---> زرارہ

ان دونوں اسناد کے تمام روات بالاتفاق ثقہ ہیں۔

من لا یحضرہ الفقیہ میں زرارہ سے نقل ہوئی، شیخ صدوق نے مشیخہ میں اپنا طریق زرارہ تک یوں نقل کیا ہے؛

شیخ صدوق –> ابیہ (علی ابن بابویہ قمّی) –> عبداللہ ابن جعفر حمیری –> محمد بن عیسی بن عبید، و حسن بن ظریف و علی ابن اسماعیل بن عیسی –> حماد بن عیسی –> حریز بن عبداللہ –> زرارہ

اس روایت میں شیخ صدوق کے والد، عبداللہ ابن جعفر حمیری، محمد بن عیسی بن عبید، حماد بن عیسی و حریز بن عبداللہ اور زرادہ ثقہ ہیں۔

شیخ صدوق نے علل الشرائع میں اسی روایت کو اس سند کے ساتھ بھی نقل کیا ہے؛

أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَة

اس سند میں بھی تمام راوی ثقہ ہیں۔

شیخ طوسی نے اس روایت کو کلینی سے نقل کیا اور کلینی سے آگے اس کی سند وہی ہے جو کافی میں تھی۔ اور شیخ طوسی کا اپنا طریق کلینی تک ثقات پر مشتمل ہے۔ تہذیب الاحکام میں اس سند کے ساتھ نقل ہوئی؛

مَا أَخْبَرَنَا بِهِ الشَّيْخُ أَيَّدَهُ اللَّهُ تَعَالَى عَنْ أَبِي الْقَاسِمِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَة

شیخ طوسی کو اس روایت کا اجازہ شیخ مفید نے دیا، ان کو مشہور محدّث ابن قولویہ نے اور انہوں نے کلینی سے نقل کیا۔ یہ سب اجلاّت ثقات ہیں، کلینی سے آگے سند وہی ہے جو اصول کافی میں نقل ہوئی۔ 


درایۃ الحدیث:


جیسا کہ اوپر وارد ہوا کہ شیخ کلینی نے دو اسناد سے اس روایت کو نقل کیا اور دونوں صحیح کے درجے پر ہیں۔ من لا یحضرہ الفقیہ میں شیخ صدوق کا زرارہ تک طریق بھی صحیح ہے۔ علل الشرائع میں بھی اس کے تمام راوی ثقات میں سے ہیں اور روایت صحیح ہے۔ تہذیب الاحکام میں بھی اس کی سند صحمح ٹھہرے گی۔ دیکھا جائے تو یہ روایت کثرت طرق، کثرت نقل اور مشایخ ثلاثہ (کلینی و صدوق و طوسی) کے اعتبار کی وجہ سے وثوق صدوری کے اعلی درجے پر ہے۔

بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مشایخ نے حمّاد بن عیسی یا حریز بن عبداللہ سجستانی کی کتاب سے اٹھایا ہے، جو یقینا ان کے پاس موجود ہوگی۔ اس زمانے میں حدیث کی کتب کو مشایخ کے پاس قرات کیا جاتا تھا یا جس کی کتاب تھی وہ اپنے شاگردوں کو املا کرتا تھا۔


فوائد الحدیث:

اس حدیث سے کئی باتیں واضح ہوتی ہیں؛

1) وضو کا شیعہ طریقہ قرآن سے ثابت ہے

2) سوال پوچھنا یا فتوی کا ماخذ پوچھنا بالکل بھی غلط نہیں بلکہ ذہنی بالیدگی کا ثبوت ہے۔ زرارہ جیسے جلیل القدر اصحاب آئمہ ع سے مختلف احکامات کی علّتیں یا ان کا ماخذ پوچھتے تھے، لیکن کبھی امام نے نہیں ٹوکا کہ تمہارا کام آنکھ بند کر کے عمل کرنا ہے۔

3) ظاہر قرآن حجت ہیں

4) یہ حدیث اجتہاد کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ امام ع گویا بتا رہے ہیں کہ ہمیں کس طرح سے قرآن و سنّت سے استنباط کرنا ہے۔ امام خمینی(رض) آئمہ(ع) کے دور میں اجتہاد کے وجود پر لکھتے ہیں؛

"ان دلائل میں وہ روایات ہیں جو کتاب اللہ سے حکم شرعی کے استنباط کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جیسے زرارہ کی روایت ۔ غور کرو کہ امام کس طرح سے زرارہ کو کتاب اللہ سے استنباط کا طریقہ سکھا رہے ہیں۔"

(الرّسائل: ج2 ص127)

شیخ حرّ عاملی اس روایت کو اجتہاد سکھانے پر واضح دلیل سمجھتے ہیں۔ آپ "الفصول المھمّہ فی اصول الائمہ" میں اصول فقہ کے باب میں اس روایت کو اس عنوان سے لاتے ہیں "ان الباء تاتی للتبعیض کآیۃ الوضوء والتیمم"۔

دکتر ابوالقاسم گرجی اس روایت کو ان روایات میں شمار کرتے ہیں جو صدر اسلام میں اجتہاد اور اصول فقہ کے وجود پر دلالت کرتے ہیں (تحوّل علم اصول، ص19)

ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ یہ روایت زرارہ کے ضعف ایمان اور بے ادبی پر دلالت کرتی ہے، تو اس کا جواب شیخ بہائی نے مشرق الشمسین میں دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ بے ادبی شمار نہیں ہوں گے اور نہ ضعف اعتقاد ہے، بلکہ زرارہ چونکہ اہل سنّت کے ساتھ مناظرے اور مباحثے کرتے تھے اور وہ ہر بات کی دلیل پوچھتے تھے اس لئے زرارہ امام باقر(ع) سے رہنمائی کے طالب ہوئے۔

والسّلام علی من اتبع الھدی

خاکسار: ابوزین الہاشمی

Wednesday, February 12, 2014

اولی الامر کون؟ قرآن میں اہل بیت ع کا نام کیوں نہیں؟


عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِى بَصِيرٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَطِيعُوا اللّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِى الْأَمْرِ مِنْكُمْ فـَقـَالَ نـَزَلَتْ فـِى عـَلِيِّ بـْنِ أَبـِي طَالِبٍ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ ع فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ فَمَا لَهُ لَمْ يُسَمِّ عَلِيّاً وَ أَهْلَ بَيْتِهِ ع فِى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ قَالَ فَقَالَ قُولُوا لَهُمْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص نَزَلَتْ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَ لَمْ يُسَمِّ اللَّهُ لَهُمْ ثَلَاثاً وَ لَا أَرْبَعاً حَتَّى كـَانَ رَسـُولُ اللَّهِ ص هُوَ الَّذِى فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَ نَزَلَتْ عَلَيْهِ الزَّكَاةُ وَ لَمْ يُسَمِّ لَهُمْ مِنْ كُلِّ أَرْبـَعـِيـنَ دِرْهَماً دِرْهَمٌ حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص هُوَ الَّذِى فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَ نَزَلَ الْحَجُّ فَلَمْ يـَقـُلْ لَهـُمْ طـُوفـُوا أُسـْبُوعاً حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص هُوَ الَّذِى فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَ نَزَلَتْ أَطـِيـعـُوا اللّهَ وَ أَطـِيـعـُوا الرَّسـُولَ وَ أُولِى الْأَمـْرِ مـِنـْكـُمْ وَ نـَزَلَتْ فـِى عـَلِيٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحـُسـَيـْنِ فـَقـَالَ رَسـُولُ اللَّهِ ص فـِى عـَلِيٍّ مـَنْ كـُنـْتُ مـَوْلَاهُ فـَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ وَ قَالَ ص ‍ أُوصـِيـكـُمْ بـِكِتَابِ اللَّهِ وَ أَهْلِ بَيْتِى فَإِنِّى سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْ لَا يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا حَتَّى يُورِدَهُمَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَعْطَانِي ذَلِكَ وَ قَالَ لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ وَ قَالَ إِنَّهُمْ لَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ بَابِ هُدًى وَ لَنْ يُدْخِلُوكُمْ فِى بَابِ ضَلَالَةٍ فَلَوْ سَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ ص فـَلَمْ يـُبـَيِّنْ مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ لَادَّعَاهَا آلُ فُلَانٍ وَ آلُ فُلَانٍ وَ لَكِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْزَلَهُ فِى كِتَابِهِ تَصْدِيقاً لِنَبِيِّهِ ص إِنَّما يُرِيدُ اللّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تـَطـْهـِيـراً فـَكـَانَ عَلِيٌّ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ فَاطِمَةُ ع فَأَدْخَلَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ص تَحْتَ الْكِسَاءِ فِى بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ أَهْلًا وَ ثَقَلًا وَ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِى وَ ثـَقـَلِى فـَقـَالَتْ أُمُّ سـَلَمـَةَ أَ لَسـْتُ مـِنْ أَهْلِكَ فَقَالَ إِنَّكِ إِلَى خَيْرٍ وَ لَكِنَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِى وَ 


ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق(ع) سے اللہ کے کلام "اطیعو اللہ و اطیعو الرسول واولی الامر منکم" (نساء 59) کا پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ یہ آیت علی ابن ابیطالب، حسن اور حسین(علیھم السلام) کے لئے نازل ہوئی ہے۔

میں نے ان سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ علی(ع) اور اہل بیت(ع) کا نام کتاب اللہ عزّوجل میں (صریح) درج کیوں نہیں ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا: ان سے کہو کہ اللہ نے نماز کی آیت رسول اللہ(ص) پر نازل کی لیکن تین رکعتی اور چار رکعتی نمازوں کے نام اس میں نہیں بتائے گئے یہاں تک کہ خود رسول (ص) نے لوگوں کو بیان کیا۔ اور (اسی طرح) آیت زکات ان پر نازل ہوئی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ہر 40 درھم پر ایک درھم زکات دینی ہے، یہاں تک کہ خود رسول(ص) نے بیان فرمایا۔ اور (اسی طرح) حج کا حکم آیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ 7 طواف کرنے ہیں، یہاں تک کی رسول(ص) نے وضاحت کی۔

اور جب "اطیعو اللہ و اطیعو الرّسول و اولی الامر منکم" نازل ہوئی تو یہ علی(ع) و حسن و حسین(ع) کے لئے نازل ہوئی۔ پس رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کے بارے میں فرمایا "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" (جس جس کا میں مولا، اس اس کا یہ علی مولا)۔ اور نیز فرمایا: میں تم سے کتاب اللہ (قرآن) اور اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں وصیّت کرتا ہوں کیونکہ میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ ان دونوں کو ہرگز باھم جدا نہ ہونے دینا جب تک یہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر نہ پہنچ جائیں، پس اللہ نے میری خواہش ہوری کی۔ اور نیز فرمایا: تم لوگ ان کو کچھ نہ سکھانا کیونکہ وہ تم سے زیادہ دانا ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا: یہ تمہیں ہدایت سے باہر ہرگز نہ جانے دیں گے اور تمہیں ضلالت و گمراہی کے دروازے میں کبھی داخل نہیں کریں گے۔

اور اگر رسول اللہ(ص) خاموشی فرماتے اور اپنی اہل بیت(ع) کے بارے میں بیان نہ فرماتے تو فلاں اور فلاں کی آل اس امر کا دعوی کرتی۔ لیکن اللہ نے اپنے نبی(ص) کی تصدیق کے لئے اپنی کتاب میں نازل فرمایا: "انّما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل بیت ویطھّرکم تطہیرا"۔ آپ(ص) نے امّ سلمہ(س) کے گھر میں اپنی عباء کے نیچے علی، فاطمہ، حسن و حسین(علیھم السّلام) کو جمع کیا اور فرمایا: اے اللہ ہر نبی کے اھل و ثقل ہوتے ہیں، میرے اھل اور ثقل یہ ہیں۔ امّ سلمہ(ر) نے عرض کیا کہ کیا میں آپ کے اھل سے نہیں؟ آپ(ص) نے فرمایا کہ بے شک تم خیر پر ہو لیکن میرے اھل و ثقل یہ ہیں۔

اصول كافى جلد 2 صفحه 40 رواية 1 

یہ حدیث اس سلسلۂ سند کے ساتھ "صحیح" کے درجے پر ہے؛

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ وَ الْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ الْحُرِّ وَ عِمْرَانَ بْنِ عَلِيٍّ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ
فوائد؛

اس حدیث سے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں؛

1) اطیعو اللہ واطیعو الرّسول واولی الامر والی آیت میں اولی الامر کے مصداق صرف آئمہ اھل بیت(ع) ہیں۔ 
کچھ گمراہ کرنے والے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر امامت منصوص ہوتی تو امام علی(ع) کا نام قرآن میں کیوں نہیں۔ امام جعفر صادق(ع) کے اس استدلال نے ان لوگوں کی بولتی بند کر دی ہے، جس طرح قرآن میں نماز کا حکم ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کس نماز کی کتنی رکعتیں ہیں اور کیسے پڑھنی ہیں، یہ رسول(ص) نے بتایا۔ اسی طرح زکات کا حکم ہے، لیکن زکات کا نصاب کیا ہے اور اس کے احکام کیا ہیں یہ رسول(ص) نے بتائے۔ اسی طرح قرآن میں اولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے، لیکن یہ اولی الامر کون ہیں یہ رسول(ص) ہی بتائیں گے اور رسول(ص) نے غدیر خم سمیت کئی مقامات پر اس بات کا برملا اظہار فرمایا کہ یہ ولایت صرف علی(ع) کی ہے۔ 

2) قرآن اور اہل بیت(ع) اطہار قدم بقدم ساتھ ہیں۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے قرآن کی مخالفت کی وہ کبھی اہل بیت(ع) میں شامل نہیں ہو سکتے۔ امّہات المؤمنین میں سے ایک امّ المؤمنین نے قرآن کی مخالفت کی، قرآن نے ان کو بعد از رسول(ص) گھروں میں رہنے کا حکم دیا مگر آپ نہ صرف گھر سے باہر نکلیں بلکہ لشکر لے کر باقاعدہ امام وقت و برحق کے خلاف بغاوت کی۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ 

3) امّہات ہرگز اھل بیت(ع) میں شامل نہیں۔ 

علاوہ ازیں حدیث کساء میں امّ سلمہ(ع) کا عبا یا ردا میں شامل ہونے کی کوشش اور رسول(ص) کا اس بات سے منع کرنا کہ تم اھل میں شامل نہیں ہو، یہ بات پوائنٹ نمبر 3 کا واضح ثبوت ہے۔ 

حدیث کساء کا واقعہ امّ سلمہ(س) کے گھر پر پیش آیا، چنانچہ وہ معروف حدیث کساء جس کی سند مخدوش ہے وہ غلط ثابت ہوتی ہے۔ صحیح احادیث کی روشنی میں یہ واقعہ امّ سلم کے گھر پر پیش آیا۔ 

آیت تطہیر کے مصداق صرف علی و حسن و حسین و فاطمہ(علیھم السلام) ہیں اور امّہات ان میں شامل نہیں۔

الحمد للہ الّذی اوّلا وآخرا و ظاھرا و باطنا

خاکسار: ابو زین الہاشمی

Tuesday, February 11, 2014

قریبی شادیوں میں کراہت


سوال: میڈیکل سائنس میں کچھ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ ماں یا باپ کی طرف سے جو رشتے ہوتے ہیں(کزنز) وغیرہ، اگر انکی آپس میں شادیاں ہوں تو بیماریاں بڑھنے یا نئ بیماریاں پیدا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ کیا تعلیمات آئمہؑ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے؟ یا آئمہؑ نے کبھی اس بات سے منع کیا ہے کہ ان رشتوں میں نسل در نسل شادیوں سے پرہیز کیا جائے؟

جواب: امام صادق(ع) فرماتے ہیں: ولا تنكحوا القرابۃ القريبہ فان الولد یخلق ضاوی یعنی "نزدیکی رشتہ داروں سے 
شادی مت کرو کیونکہ اس سے ضعیف اولاد پیدا ہوتی ہے"۔ 

یہ روایت شیخ طوسی نے نہایۃ الاحکام میں، علامہ حلی نے تذکرۃ الفقہاء میں، شہید ثانی نے مسالک الافہام میں، اور شیخ یوسف بحرانی نے حدائق الناظرہ میں نقل کی ہے۔ آيت اللہ مکارم شیرازی نے بھی اپنی ایک استفتاء میں اس روایت سے استدلال کیا ہے اور نہایت قریبی شادیوں میں کراہت کے قائل ہوئے ہیں۔

لہذا نسل در نسل قریبی رشتہ داروں میں شادیاں بہت سے جینیاتی مسائل کو جنم دیتی ہیں جس کی طرف امام ع نے اشارہ فرمایا اور میڈیکل سائنس اس کی تائید کرتی ہے۔ البتہ اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ کزنز میں شادیاں مکروہ ہوں گی، بلکہ یہ کراہت اسی صورت میں ہوگی جب نسل در نسل ایسی شادیاں وقوع پذیر ہوں۔

دیگر اقوام و قبائل میں شادیوں سےرشتہ داریاں بھی بڑھتی ہیں اور اولاد قوی اور ذہین پیدا ہوتی ہے۔ 

واللہ اعلم

الاحقر: ابوزین الہاشمی

کعبہ کی افضلیت


عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: كُنْتُ قَاعِداً إِلَى جَنْبِ أَبِي جَعْفَرٍ ع- وَ هُوَ مُحْتَبٍ مُسْتَقْبِلُ الْكَعْبَةِ فَقَالَ أَمَا إِنَّ النَّظَرَ إِلَيْهَا عِبَادَةٌ فَجَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَجِيلَةَ يُقَالُ لَهُ عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ فَقَالَ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع إِنَّ كَعْبَ الْأَحْبَارِ كَانَ يَقُولُ إِنَّ الْكَعْبَةَ تَسْجُدُ لِبَيْتِ الْمَقْدِسِ فِي كُلِّ غَدَاةٍ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع فَمَا تَقُولُ فِيمَا قَالَ كَعْبٌ فَقَالَ صَدَقَ الْقَوْلُ مَا قَالَ كَعْبٌ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع كَذَبْتَ وَ كَذَبَ كَعْبُ الْأَحْبَارِ مَعَكَ وَ غَضِبَ قَالَ زُرَارَةُ مَا رَأَيْتُهُ اسْتَقْبَلَ أَحَداً بِقَوْلِ كَذَبْتَ غَيْرَهُ ثُمَّ قَالَ مَا خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بُقْعَةً فِي الْأَرْضِ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْهَا ثُمَّ أَوْمَأَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْكَعْبَةِ وَ لَا أَكْرَمَ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْهَا لَهَا حَرَّمَ اللَّهُ الْأَشْهُرَ الْحُرُمَ فِي كِتَابِهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَةٌ لِلْحَجِّ- شَوَّالٌ وَ ذُو الْقَعْدَةِ وَ ذُو الْحِجَّةِ وَ شَهْرٌ مُفْرَدٌ لِلْعُمْرَةِ وَ هُوَ رَجَبٌ.

زرارہ کہتے ہیں کہ میں امام باقر ع کے پاس بیٹھا تھا اور آپ(ع) اپنے لباس کو لپیٹ کر قبلہ رخ بیٹھے تھے۔ آپ(ع) نے فرمایا:
"کعبہ کو دیکھنا بھی عبادت ہے"۔

اس پر ایک شخص جس کا نام عاصم بن عمر تھا، نے کہا: "کعب الاحبار کہتا ہے کہ کعبہ ہر روز صبح بیت المقدّس کو سجدہ کرتا ہے۔"

امام باقر(ع) نے اس شخص سے کہا: "تمہاری رائے کعب الاحبار کی اس بات کے بارے میں کیا ہے؟"

اس شخص نے جواب دیا کہ جو کچھ کعب نے کہا ہے، درست کہا ہے۔ اس پر آپ(ع) نے غضبناک ہو کر کہا: "تم اور کعب دونوں نے جھوٹ کہا ہے۔" اس کے بعد کعبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

"اللہ عزّوجل نے کعبہ سے بہتر کوئی بھی مکان اس روئے زمین پر خلق نہیں کیا۔"

زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ امام کسی سے روبرو ہوئے ہوں اور اس کو جھوٹا کہا ہو۔

(اصول کافی، ج4 ص239، باب فضل النظر الی الکعبہ)


اس روایت کی دو اسناد ہوئیں؛

علی ابن ابراھیم --> ابراھیم بن ہاشم --> ابن ابی عمیر --> عمر بن اذینہ --> زرارہ بن اعین 

محمد بن اسماعیل --> فضل بن شاذان --> ابن ابی عمیر --> عمر بن اذینہ --> زرارہ بن اعین 

یہ حدیث دو اسناد سے مروی ہے اور دونوں اسناد کے راوی بالاتفاق ثقہ ہیں۔

خاکسار: ابوزین الہاشمی

جنّات میں انبیاء

سوال) کیا جنّات میں بھی انبیاء آئے ہیں؟


جواب) قرآن کی یہ آیت واضح اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں اور جنّات دونوں میں انبیاء بھیجے، قیامت کے دن اللہ جنات اور انسانوں سے مخاطب ہو کر کہے گا؛

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَـذَا قَالُواْ شَهِدْنَا عَلَى أَنفُسِنَا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُواْ كَافِرِينَ

اے گروہ جن و انس ! کیا تمہارے پاس خود تم میں سے رسول نہیں آئے تھے جو میری آیات تمہیں سناتے تھے اور آج کے دن کے وقوع کے بارے میں تمہیں متنبہ کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں اور دنیاوی زندگی نے انہیں دھوکہ دے رکھا تھا اور (آج) وہ اپنے خلاف گواہی دے رہے ہیں کہ وہ کافر تھے 

سورہ انعام: 130

اس بات کی تائید احادیث میں بھی ملتی ہے، جیسے علل الشرائع کی ایک روایت ہے جس کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار کی جلد 60 ص78 میں نقل کیا ہے؛

سَأَلَهُ هَلْ بَعَثَ اللَّهُ نَبِيّاً إِلَى الْجِنِّ فَقَالَ نَعَمْ بَعَثَ إِلَيْهِمْ نَبِيّاً يُقَالُ لَهُ يُوسُفُ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ فَقَتَلُوه

مولا علی(ع) سے پوچھا گیا کہ کیا اللہ تعالی نے جنات کی طرف نبی بھیجا، تو آپ ع نے فرمایا: "ہاں ان کی طرف نبی بھیجا گیا تھا جس کا نام یوسف تھا، جب اس نبی نے ان کو اللہ کی طرف دعوت دی تو انہوں نے اس کو قتل کر دیا۔"


البتہ ان باتوں کا ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ جنات کے انبیاء الگ ہوتے ہیں اور انسانوں کے الگ ہوتے ہیں، اور جنّات کبھی بھی انسانی انبیاء کے مطیع نہیں رہے ہوں گے۔ بلکہ بعض انبیاء جن و انس سب کے لئے تھے اور ان کے لئے بطور خاص جنات کو مطیع کیا گیا جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام۔۔ جنّات میں چند ہی انبیاء آئے ہوں گے کیونکہ جنّات کی عمر انسانوں سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اور مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں ممکن ہے کہ ایک ہی نبی آیا ہو، لیکن بہرحال جنات میں انبیاء کا مبعوث ہونا ناممکن نہیں۔

اس سلسلے میں تھوڑی مزید وضاحت کر دیں کہ بعض انبیاء فقط ایک قریہ کے لئے مبعوث ہوئے، کچھ انبیاء فقط ایک قوم یا قبیلے کے لئے مبعوث ہوئے۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ (سورہ ابراھیم: 4)

ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی قوم کی زبان میں تاکہ وہ انہیں وضاحت سے بات سمجھا سکے۔

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولٌ فَإِذَا جَاء رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ (سورہ یونس: 47)

اور ہر امت کیلیے ایک رسول(بھیجا گیا) ہے،پھرجب ان کا رسول آتا ہے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جاتا ہے اور ان پر کوئی ظلم روا نہیں رکھا جاتا۔

پس ایسا ناممکن نہیں کہ اللہ جنّات کے لئے جناّت میں سے ہی کسی کو مبعوث کرے۔ انبیاء کی اکثریت کو محدود علاقوں یا قوم کے لئے مبعوث کیا گیا۔ تبھی ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے یقینا چین، ہندوستان، افریقہ اور دنیا کے تمام علاقوں میں انبیاء بھیجے ہوں گے، یہاں تک کہ امریکہ کے "ریڈ انڈینز" میں بھی انبیاء آئے ہوں گے۔

لیکن رسول اللہ حضرت محمد مصطفی(ص) کی نبوّت و رسالت پورے عالم کے لئے تھی، اور آپ جنّات کے لئے بھی آخری نبی ہیں۔

وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ (سورہ احقاف: 29)

اور (یاد کیجیے) جب ہم نے جنات کے ایک گروہ کو آپ کی طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن سنیں، پس جب وہ رسول کے پاس حاضر ہو گئے تو (آپس میں) کہنے لگے: خاموش ہو جاؤ! جب تلاوت ختم ہو گئی تو وہ تنبیہ (ہدایت) کرنے اپنی قوم کی طرف واپس لوٹ گئے۔

جنّات دیگر اولو العزم پیغمبروں پر بھی ایمان رکھتے تھے، جیسا کہ واضح ہے؛

قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ (سورہ احقاف: 30)

انہوں (جنّات) نے کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے، وہ حق اور راہ راست کی طرف ہدایت کرتی ہے۔

والسّلام

العبد: ابو زین الہاشمی

کیا گناہوں کی سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے؟

سوال) کیا گناہوں کی سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ بیماریوں سے گناہ دھلتے ہیں، اس سے کیا مراد ہے؟


جواب) یہ دنیا جزا و سزا کی جگہ نہیں بلکہ دارالاعمال ہے۔ یہ دنیا دارالامتحان بھی ہے جس میں نیک اور بد، سعید و بدبخت آپس میں جدا ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں آپ اگلے جہاں کے لئے کھیتی کرتے ہیں (الدّنیا مزرعۃ الآخرہ)۔۔۔ آخرت میں اس کا پھل یا اس کی سزا ملتی ہے۔ کوئی گناہ نہیں ہے جس کی سزا اس دنیا میں ملتی ہے، حکیم الامّت امام خمینی نے اس بات کی سختی سے مذمّت کی ہے۔

بیماری سے گناہ جھڑنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی انسانوں کو اس دنیا میں آزماتا ہے، سخت بیماری بھی آزمائش ہوتی ہے، اگر وہ شخص مومن ہوگا تو اللہ کے مزید قریب ہوگا، اللہ سے توبہ کرے گا اور عبادت کی طرف راغب ہوگا، بیماری میں گناہ سے متنفر ہوگا۔ بیماری کی صورت میں وہ توبہ کرے گا تو یقینا اس کے گناہ جھڑیں گے، عبادت کی طرف راغب ہوگا اور توبہ کرے گا تو یقینا درجات بلند ہوں گے۔

البتہ اللہ تعالی اپنے خاص بندوں کو اس دنیا میں آزماتا ہے، اور ان پر مختلف بلائیں آتی ہیں تاکہ ان کے درجات بلند ہوں۔ دنیا میں غرق ہونا اور اس کی لذّات میں کھو جانا انسان کے اندر دنیا کی محبّت پیدا کر دیتی ہے اور وہ اللہ کی اطاعت اور دار آخرت کو بھول جاتا ہے۔ جبکہ اس دنیا میں مشکلات، آفات اور سختیاں انسان کو دنیا سے متنفّر کر دیتی ہے اور اگر وہ اللہ سے تھوڑی بہت بھی قربت رکھتا ہو وہ آخرت کی فکر کرنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے خاص بندے مشکلات میں رہتے ہیں اور مختلف آفات و بلیّات ان پر پڑتی رہتی ہیں۔ دنیا سے دوری یا مشکلات بھی اللہ کی طرف سے رحمت ہے، اگر ہم سمجھ سکیں۔

امام باقر(ع) فرماتے ہیں: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَيَتَعَاهَدُ الْمُؤْمِنَ بِالْبَلَاءِ كَمَا يَتَعَاهَدُ الرَّجُلُ أَهْلَهُ بِالْهَدِيَّةِ مِنَ الْغَيْبَةِ وَ يَحْمِيهِ الدُّنْيَا كَمَا يَحْمِي الطَّبِيبُ الْمَرِيض۔۔۔۔ یعنی اللہ عزّوجل مرد مؤمن کو بلاؤں کے ذریعے دوست رکھتا ہے جیسے کوئی شخص اپنی بیوی کے لئے سفر سے تحفہ لاتا ہے۔ اور اس کو دنیا سے بچنے کے لئے اسباب مہیّا کرتا ہے جیسے کوئی طبیب کسی مریض کو پرہیز بتاتا ہے۔ (اصول کافی: ج2 ص255)

امام صادق(ع) فرماتے ہیں: إِنَّ عَظِيمَ الْأَجْرِ لَمَعَ عَظِيمِ الْبَلَاءِ وَ مَا أَحَبَّ اللَّهُ قَوْماً إِلَّا ابْتَلَاهُم۔۔۔ بے شک اجر عظیم بڑی بلاؤں اور سختیوں کے ساتھ ہے، اور جس کو اللہ دوست رکھتا ہے اس کو اللہ سختیوں اور بلاؤں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (اصول کافی: ج2 ص252)

چنانچہ کسی مومن کی سختیاں اس پر عذاب نہیں، نہ کسی گناہ کا نتیجہ ہے، بلکہ یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالی اس کو دوست رکھتا ہے اور آزمائش کے ذریعے اس کے اجر میں اضافہ کرتا ہے۔ چنانچہ دنیا میں آزمائش ممکن ہے لیکن کسی قسم کا عقاب یا عذاب نہیں ہے۔

دنیا دار عمل ہے، اس دنیا میں عمل ہے اور اس کا پھل آخرت میں ہے۔ یہ اسلام کا فلسفۂ آخرت ہے۔ البتہ کچھ جرائم ہوتے ہیں جن کے کچھ نتائج دنیا میں ہی ہوتے ہیں، جن کو ہم "کیفر" کہتے ہیں۔۔۔ مثلا کہتے ہیں کہ فلاں کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ مثلا شرابخواری گناہ ہے، اس کا مرتکب توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن سزا پائے گا لیکن کثرت سے شرابخواری کے نتائج اس کو اس دنیا میں بھگتنے ہوں گے کیونکہ شراب جسم اور روح کو تباہ کر دیتا ہے، یہ اعصاب کو خراب کر دیتا ہے اور جگر و دیگر اعضاء کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ اگر وہ توبہ کے باوجود ان عوارض میں مبتلا ہو جائے تو اس کو کہتے ہیں کہ وہ شخص کیفر کردار کو پہنچا، اس نے اس دنیا میں بھی اس گناہ کے آثار دیکھ لئے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی اصل سزا میں کسی قسم کی کوئی تخفیف ہوئی۔ وہ آخرت میں اس کی مکمّل سزا پائے گا اگر صدق دل سے توبہ نہ کرے۔

یا مثلا جنسی انحرافات کا نتیجہ ایڈز یا دیگر بیماریوں کی شکل میں انسان بھگتتا ہے، اور بعض معاشروں میں بدنامی کی صورت میں۔

ایک اور مثال دیتا ہوں کہ کوئی شخص زہر کھا رہا ہو، ہم اس کو روکیں کہ زہر کھانے سے مر جاؤ گے۔ لیکن وہ پھر بھی کھائے جس کی نتیجے میں وہ مر جائے۔۔ اس پر کوئی شخص کہے کہ اس کا گناہ کچھ سیکنڈوں کا تھا کیونکہ زہر کھانے میں کچھ سیکنڈ ہی لگیں گے لیکن اس کو اتنی بڑی سزا ملی کہ وہ مر گیا۔۔۔ یہ اعتراض باطل ہوگا کیونکہ زہر کھانے کی صورت میں مرنا معلول ہے۔ زہر کھانے کا نتیجہ موت ہے، اس کو ہم خودکشی کی سزا نہیں کہہ سکتے۔ اس کے اس عمل کا نتیجہ مرنا تھا، سو وہ مر گیا۔۔۔ لیکن اس کو خودکشی کی سزا قیامت کے دن ملے گا۔

ایک اور مثال لیں! کوئی شخص قتل پر قتل کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر *Chain killer* ہے۔ قتل کرنا گناہ ہے، اور وہ قتل کرتا جاتا ہے۔ اس کے اس عمل کا نتیجہ اس دنیا میں کیا ہوگا؟ وہ پکڑا جائے گا اور پولیس اس کو پھانسی دے گی یا عمر قید کی سزا ۔۔۔۔ اس کو مکافات عمل کہتے ہیں یا ہم یوں کہیں گے کہ وہ کیفر کردار تک پہنچ گیا۔ اس نے اپنے عمل کا نتیجہ دیکھ لیا، لیکن یہ اس کے گناہوں کی سزا نہیں ہے۔ اس نے کئی قتل کئے لیکن اس کو سزا ایک قتل کی صورت میں ملی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، یہ دنیا دار عمل ہے۔ ابھی اس نے اعمال انجام دیئے ہیں، اس کی سزا اس کو آخرت میں ملے گی لیکن ان اعمال کا جو نتیجہ مرتّب ہونا تھا وہ بھی اس نے دیکھ لیا۔

اب اگر فرض کریں کہ وہ قاتل نہیں پکڑا جاتا، یا وہ اتنا عقلمند تھا کہ اپنے جرائم کا نشان تک نہیں چھوڑا۔ اب کیا کہیں گے؟؟؟ کیا یہی خدا کا عدل ہے کہ ایک شخص پکڑا جاتا ہے اور کیفر کردار کو پہنچتا ہے اور ایک شخص دندناتا پھرتا ہے؟ ہرگز نہیں، اللہ کا اصل عدل تو قیامت کے دن ہوگا۔۔۔ باقی کوئی اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھ لیتا ہے اور کوئی نہیں دیکھتا، اس کا اس کی سزا سے تعلق نہیں ہے

مثلا ایک آمر و جابر بادشاہ ہے، کتنے ظالم حکمران ایسے ہیں جنہوں نے اپنے عمل کا نتیجہ اس دنیا میں دیکھا۔ عوام ان کے خلاف کھڑی ہوئی یا ان کو بھی اس عمل کی سزا ملی۔ جیسے صدّام حسین! اس شخص نے ہزاروں لوگوں کو قتل کیا اور لاکھوں پر اس نے ظلم کے پہاڑ توڑے۔ آخر خود رسواکن انداز میں پکڑا گیا، اور کیفر کردار تک پہنچا۔ لیکن اس کو ابھی اپنے اعمال کی سزا نہیں ملی۔ یہ تو اس نے اپنے عمل کا نتیجہ دیکھا ہے۔ کسی کو مارو گے یا ظلم کرو گے تو آپ کو بھی جواب ملے گا۔

لیکن اس کے برعکس کتنے ظالم حکمران ایسے ہیں جو ساری زندگی ظلم کرتے رہے اور بغیر کوئی نتیجہ دیکھے اس دنیا سے چلے گئے۔ 

مندرجہ ذیل قرآنی آیات میں اسی طرف اشارہ ہے؛

لَّهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَقُّ ۖ وَمَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِن وَاقٍ 

(سُوۡرَةُ الرّعد:٣٤)

ان کے لئے زندگانی دنیا میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو اور زیادہ سخت ہے اور پھر اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہے

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ 

(سُوۡرَةُ النُّور:١٩)

جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ صاحبانِ ایمان میں بدکاری کا چرچا پھیل جائے ان کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اللہ سب کچھ جانتا ہے صرف تم نہیں جانتے ہو

دنیا میں دردناک عذاب سے مراد بدکاری کی صورت میں سخت سزائیں ہیں جو یقینا انسان کی برداشت سے زیادہ ہیں۔

والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ

العبد: ابوزین الہاشمی

"علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے"

سوال) ایک حدیث کافی مشہور ہے علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین کیوں نہ جانا پڑے، یہ حدیث ہماری کتب میں کہاں کہاں موجود ہے؟ اور کیا اس حدیث پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟


جواب) یہ حدیث بحارالانوار میں روضۃالواعظین سے ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے؛

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص اطْلُبُوا الْعِلْمَ وَ لَوْ بِالصِّينِ فَإِنَّ طَلَبَ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِم

رسول اللہ ص نے فرمایا: علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے کیونکہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

(بحارالانوار: ج1 ص180، روضۃ الواعظین: ج1 ص18)

اس حدیث کی اصل جڑ روضۃ الواعظین ہے جہاں سے یہ مختلف کتب میں نقل ہوئی۔ بحارالانوار کے علاوہ علامہ طبرسی نے مشکاۃ الانوار، ابن ابی جمہور احسائی نے عوالی اللئالی، شہید ثانی نے منیۃ المرید میں، ملاّ صدرا اور ملاّ صالح مازندرانی نے اپنی شروح کافی میں اور شیخ حرّعاملی نے وسائل الشیعہ میں نقل کیا ہے۔


یہ حدیث مصباح الشریعہ میں امام علی ع سے ان الفاظ کے ساتھ بھی نقل ہوئی ہے؛

وَ قَالَ عَلِيٌّ ع اطْلُبُوا الْعِلْمَ وَ لَوْ بِالصِّينِ وَ هُوَ عِلْمُ مَعْرِفَةِ النَّفْسِ وَ فِيهِ مَعْرِفَةُ الرَّبِّ عَزَّ وَ جَل

امام علی(ع): علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے، اور علم سے مراد اپنے نفس کی معرفت ہے اور اسی میں اپنے رب عزّوجل کی معرفت پنہان ہے۔

(مصباح الشریعہ: ص13 باب الخامس فی العلم)

مصباح الشریعہ کی اس روایت کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار ج2 ص34 پر بھی نقل کیا ہے۔ یہاں پر مصباح الشریعہ کے حوالے سے تھوڑی گفتگو کریں گے۔ اس کتاب مصباح الشریعہ کو امام صادق ع سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن حق تو یہ ہے کہ یہ کسی شیعہ عالم کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے امام صادق ع کی احادیث نقل کی ہیں۔

شیخ کفعمی نے مجموع الغرائب میں کثرت سے مصباح الشریعہ سے نقل کیا ہے۔ شہید ثانی نے کشف الریبہ، منیۃ المرید، مسکن الفوائد، اور اسرار الصّلاہ میں اس کتاب سے کثرت سے نقل کیا ہے اور احادیث کو قطعی طور پر امام صادق ع سے نسبت دی ہے۔ سیّد ابن طاؤوس نے کتاب "الامان" میں مصباح الشریعہ کی بہت تعریف کی ہے، اور کہا ہے کہ ہر مسافر اپنے ساتھ اس کتاب کو ضرور رکھے کیونکہ اس میں اللہ کی طرف سیر و سلوک کے طریقے ہیں اور اس کتاب کے ہمسفر ہونے سے انسان اللہ کی یاد کو فراموش نہیں کرتا۔

اس کے علاوہ کچھ علماء نے اس کتاب پر اعتبار نہیں کیا۔ ان کے دلائل یہ ہیں؛

1) اس کی روایات مرسل ہیں

2) اس کا مصنّف معلوم نہیں

3) اس کے مضامین تصوّف سے مشابہت رکھتے ہیں

4) اس روایت کا اسلوب معصومین ع کی دیگر احادیث کی طرح نہیں (بحارالانوار: ج1 ص32)

اس کتاب کی روایات کا مرسل ہونا یا اس کے مصنّف کا معلوم نہ ہونا ضرر نہیں پہنچاتا کیونکہ تمام روایات اخلاقی ہیں جیسے زھد، قناعت، شکر، غیبت و ریاکاری و تکبّر و حسد اور طمع کی مذمّت۔۔۔۔ علاوہ ازیں روزمرّہ کے آداب و سنن جیسے بیت الخلاء کے آداب، وضو اور نماز کے آداب وغیرہ۔ ان روایات میں سند کا ضعف کسی نقصان کا باعث نہیں بشرطیکہ مسلّمات و عقل سلیم سے متصادم نہ ہو۔

جہاں تک تصوّف سے مشابہت کی بات ہے تو مخفی نہ رہے کہ اہل تصوّف کے پیش نظر دو چیزیں ہیں۔ تہذیب و تزکیۂ نفس، عبادت و ریاضت، مجاہدہ و تفکّر و مشاہدہ۔۔ یہ چیزیں جائز ہیں اور علمائے کرام نے بھی ان بہترین چیزوں پر توجّہ کی ہے۔ تصوّف کی مذمّت کی آڑ میں ان چیزوں کی مذمّت روح اسلام سے عدم واقفیت کی علامت ہے۔ بعض ذہنی طور پر پسماندہ لوگوں نے سید ابن طاؤوس، شہید ثانی و امام خمینی پر صوفی گری کی تہمت اسی لئے لگائی ہے۔

تصوّف میں جو کمالات و منازل بتائے جاتے ہیں اور باطل عقائد رکھے جاتے ہیں جیسے حقیقت محمپدیہ و وحدت الوجود و اتّحاد و حلول جو شدید مذموم ہیں۔ علاوہ ازیں تصوّف کی اصل مذمّت کی ایک وجہ رہبانیت ہے، تصوّف میں دنیا کو ترک کرنے پر زور ہے جو شریعت میں شدید مذموم ہے۔ تصوّف کی یہی باتیں ناقابل قبول ہیں ورنہ تصوّف میں جو چیزیں اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہیں ان کو اپنانے میں حرج نہیں بلکہ ان کو اپنانا واجب ہے تاکہ کمالات روحانی و معنوی حاصل ہوں۔

لہذا مصباح الشریعہ کی وہ روایات جو عقل و نقل سے متصادم نہ ہوں اور بہترین اخلاقی تربیت کرتے ہیں ان کو نقل کرنے اور قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

پس "علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے" یہ حدیث قبول کرنے میں حرج نہیں، بلکہ یہ روایت اسلام کے بنیادی حکم "علم کی فرضیت" کے عین مطابق ہے۔

واللہ اعلم

العبد: ابوزین الہاشمی