عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِى بَصِيرٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَطِيعُوا اللّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِى الْأَمْرِ مِنْكُمْ فـَقـَالَ نـَزَلَتْ فـِى عـَلِيِّ بـْنِ أَبـِي طَالِبٍ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ ع فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ فَمَا لَهُ لَمْ يُسَمِّ عَلِيّاً وَ أَهْلَ بَيْتِهِ ع فِى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ قَالَ فَقَالَ قُولُوا لَهُمْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص نَزَلَتْ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَ لَمْ يُسَمِّ اللَّهُ لَهُمْ ثَلَاثاً وَ لَا أَرْبَعاً حَتَّى كـَانَ رَسـُولُ اللَّهِ ص هُوَ الَّذِى فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَ نَزَلَتْ عَلَيْهِ الزَّكَاةُ وَ لَمْ يُسَمِّ لَهُمْ مِنْ كُلِّ أَرْبـَعـِيـنَ دِرْهَماً دِرْهَمٌ حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص هُوَ الَّذِى فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَ نَزَلَ الْحَجُّ فَلَمْ يـَقـُلْ لَهـُمْ طـُوفـُوا أُسـْبُوعاً حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص هُوَ الَّذِى فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَ نَزَلَتْ أَطـِيـعـُوا اللّهَ وَ أَطـِيـعـُوا الرَّسـُولَ وَ أُولِى الْأَمـْرِ مـِنـْكـُمْ وَ نـَزَلَتْ فـِى عـَلِيٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحـُسـَيـْنِ فـَقـَالَ رَسـُولُ اللَّهِ ص فـِى عـَلِيٍّ مـَنْ كـُنـْتُ مـَوْلَاهُ فـَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ وَ قَالَ ص أُوصـِيـكـُمْ بـِكِتَابِ اللَّهِ وَ أَهْلِ بَيْتِى فَإِنِّى سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْ لَا يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا حَتَّى يُورِدَهُمَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَعْطَانِي ذَلِكَ وَ قَالَ لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ وَ قَالَ إِنَّهُمْ لَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ بَابِ هُدًى وَ لَنْ يُدْخِلُوكُمْ فِى بَابِ ضَلَالَةٍ فَلَوْ سَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ ص فـَلَمْ يـُبـَيِّنْ مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ لَادَّعَاهَا آلُ فُلَانٍ وَ آلُ فُلَانٍ وَ لَكِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْزَلَهُ فِى كِتَابِهِ تَصْدِيقاً لِنَبِيِّهِ ص إِنَّما يُرِيدُ اللّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تـَطـْهـِيـراً فـَكـَانَ عَلِيٌّ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ فَاطِمَةُ ع فَأَدْخَلَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ص تَحْتَ الْكِسَاءِ فِى بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ أَهْلًا وَ ثَقَلًا وَ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِى وَ ثـَقـَلِى فـَقـَالَتْ أُمُّ سـَلَمـَةَ أَ لَسـْتُ مـِنْ أَهْلِكَ فَقَالَ إِنَّكِ إِلَى خَيْرٍ وَ لَكِنَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِى وَ
ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق(ع) سے اللہ کے کلام "اطیعو اللہ و اطیعو الرسول واولی الامر منکم" (نساء 59) کا پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ یہ آیت علی ابن ابیطالب، حسن اور حسین(علیھم السلام) کے لئے نازل ہوئی ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ علی(ع) اور اہل بیت(ع) کا نام کتاب اللہ عزّوجل میں (صریح) درج کیوں نہیں ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا: ان سے کہو کہ اللہ نے نماز کی آیت رسول اللہ(ص) پر نازل کی لیکن تین رکعتی اور چار رکعتی نمازوں کے نام اس میں نہیں بتائے گئے یہاں تک کہ خود رسول (ص) نے لوگوں کو بیان کیا۔ اور (اسی طرح) آیت زکات ان پر نازل ہوئی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ہر 40 درھم پر ایک درھم زکات دینی ہے، یہاں تک کہ خود رسول(ص) نے بیان فرمایا۔ اور (اسی طرح) حج کا حکم آیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ 7 طواف کرنے ہیں، یہاں تک کی رسول(ص) نے وضاحت کی۔
اور جب "اطیعو اللہ و اطیعو الرّسول و اولی الامر منکم" نازل ہوئی تو یہ علی(ع) و حسن و حسین(ع) کے لئے نازل ہوئی۔ پس رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کے بارے میں فرمایا "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" (جس جس کا میں مولا، اس اس کا یہ علی مولا)۔ اور نیز فرمایا: میں تم سے کتاب اللہ (قرآن) اور اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں وصیّت کرتا ہوں کیونکہ میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ ان دونوں کو ہرگز باھم جدا نہ ہونے دینا جب تک یہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر نہ پہنچ جائیں، پس اللہ نے میری خواہش ہوری کی۔ اور نیز فرمایا: تم لوگ ان کو کچھ نہ سکھانا کیونکہ وہ تم سے زیادہ دانا ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا: یہ تمہیں ہدایت سے باہر ہرگز نہ جانے دیں گے اور تمہیں ضلالت و گمراہی کے دروازے میں کبھی داخل نہیں کریں گے۔
اور اگر رسول اللہ(ص) خاموشی فرماتے اور اپنی اہل بیت(ع) کے بارے میں بیان نہ فرماتے تو فلاں اور فلاں کی آل اس امر کا دعوی کرتی۔ لیکن اللہ نے اپنے نبی(ص) کی تصدیق کے لئے اپنی کتاب میں نازل فرمایا: "انّما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل بیت ویطھّرکم تطہیرا"۔ آپ(ص) نے امّ سلمہ(س) کے گھر میں اپنی عباء کے نیچے علی، فاطمہ، حسن و حسین(علیھم السّلام) کو جمع کیا اور فرمایا: اے اللہ ہر نبی کے اھل و ثقل ہوتے ہیں، میرے اھل اور ثقل یہ ہیں۔ امّ سلمہ(ر) نے عرض کیا کہ کیا میں آپ کے اھل سے نہیں؟ آپ(ص) نے فرمایا کہ بے شک تم خیر پر ہو لیکن میرے اھل و ثقل یہ ہیں۔
اصول كافى جلد 2 صفحه 40 رواية 1
یہ حدیث اس سلسلۂ سند کے ساتھ "صحیح" کے درجے پر ہے؛
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ وَ الْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ الْحُرِّ وَ عِمْرَانَ بْنِ عَلِيٍّ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِفوائد؛
اس حدیث سے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں؛
1) اطیعو اللہ واطیعو الرّسول واولی الامر والی آیت میں اولی الامر کے مصداق صرف آئمہ اھل بیت(ع) ہیں۔
کچھ گمراہ کرنے والے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر امامت منصوص ہوتی تو امام علی(ع) کا نام قرآن میں کیوں نہیں۔ امام جعفر صادق(ع) کے اس استدلال نے ان لوگوں کی بولتی بند کر دی ہے، جس طرح قرآن میں نماز کا حکم ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کس نماز کی کتنی رکعتیں ہیں اور کیسے پڑھنی ہیں، یہ رسول(ص) نے بتایا۔ اسی طرح زکات کا حکم ہے، لیکن زکات کا نصاب کیا ہے اور اس کے احکام کیا ہیں یہ رسول(ص) نے بتائے۔ اسی طرح قرآن میں اولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے، لیکن یہ اولی الامر کون ہیں یہ رسول(ص) ہی بتائیں گے اور رسول(ص) نے غدیر خم سمیت کئی مقامات پر اس بات کا برملا اظہار فرمایا کہ یہ ولایت صرف علی(ع) کی ہے۔
2) قرآن اور اہل بیت(ع) اطہار قدم بقدم ساتھ ہیں۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے قرآن کی مخالفت کی وہ کبھی اہل بیت(ع) میں شامل نہیں ہو سکتے۔ امّہات المؤمنین میں سے ایک امّ المؤمنین نے قرآن کی مخالفت کی، قرآن نے ان کو بعد از رسول(ص) گھروں میں رہنے کا حکم دیا مگر آپ نہ صرف گھر سے باہر نکلیں بلکہ لشکر لے کر باقاعدہ امام وقت و برحق کے خلاف بغاوت کی۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ
میں نے ان سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ علی(ع) اور اہل بیت(ع) کا نام کتاب اللہ عزّوجل میں (صریح) درج کیوں نہیں ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا: ان سے کہو کہ اللہ نے نماز کی آیت رسول اللہ(ص) پر نازل کی لیکن تین رکعتی اور چار رکعتی نمازوں کے نام اس میں نہیں بتائے گئے یہاں تک کہ خود رسول (ص) نے لوگوں کو بیان کیا۔ اور (اسی طرح) آیت زکات ان پر نازل ہوئی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ہر 40 درھم پر ایک درھم زکات دینی ہے، یہاں تک کہ خود رسول(ص) نے بیان فرمایا۔ اور (اسی طرح) حج کا حکم آیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ 7 طواف کرنے ہیں، یہاں تک کی رسول(ص) نے وضاحت کی۔
اور جب "اطیعو اللہ و اطیعو الرّسول و اولی الامر منکم" نازل ہوئی تو یہ علی(ع) و حسن و حسین(ع) کے لئے نازل ہوئی۔ پس رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کے بارے میں فرمایا "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" (جس جس کا میں مولا، اس اس کا یہ علی مولا)۔ اور نیز فرمایا: میں تم سے کتاب اللہ (قرآن) اور اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں وصیّت کرتا ہوں کیونکہ میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ ان دونوں کو ہرگز باھم جدا نہ ہونے دینا جب تک یہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر نہ پہنچ جائیں، پس اللہ نے میری خواہش ہوری کی۔ اور نیز فرمایا: تم لوگ ان کو کچھ نہ سکھانا کیونکہ وہ تم سے زیادہ دانا ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا: یہ تمہیں ہدایت سے باہر ہرگز نہ جانے دیں گے اور تمہیں ضلالت و گمراہی کے دروازے میں کبھی داخل نہیں کریں گے۔
اور اگر رسول اللہ(ص) خاموشی فرماتے اور اپنی اہل بیت(ع) کے بارے میں بیان نہ فرماتے تو فلاں اور فلاں کی آل اس امر کا دعوی کرتی۔ لیکن اللہ نے اپنے نبی(ص) کی تصدیق کے لئے اپنی کتاب میں نازل فرمایا: "انّما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل بیت ویطھّرکم تطہیرا"۔ آپ(ص) نے امّ سلمہ(س) کے گھر میں اپنی عباء کے نیچے علی، فاطمہ، حسن و حسین(علیھم السّلام) کو جمع کیا اور فرمایا: اے اللہ ہر نبی کے اھل و ثقل ہوتے ہیں، میرے اھل اور ثقل یہ ہیں۔ امّ سلمہ(ر) نے عرض کیا کہ کیا میں آپ کے اھل سے نہیں؟ آپ(ص) نے فرمایا کہ بے شک تم خیر پر ہو لیکن میرے اھل و ثقل یہ ہیں۔
اصول كافى جلد 2 صفحه 40 رواية 1
یہ حدیث اس سلسلۂ سند کے ساتھ "صحیح" کے درجے پر ہے؛
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ وَ الْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ الْحُرِّ وَ عِمْرَانَ بْنِ عَلِيٍّ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِفوائد؛
اس حدیث سے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں؛
1) اطیعو اللہ واطیعو الرّسول واولی الامر والی آیت میں اولی الامر کے مصداق صرف آئمہ اھل بیت(ع) ہیں۔
کچھ گمراہ کرنے والے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر امامت منصوص ہوتی تو امام علی(ع) کا نام قرآن میں کیوں نہیں۔ امام جعفر صادق(ع) کے اس استدلال نے ان لوگوں کی بولتی بند کر دی ہے، جس طرح قرآن میں نماز کا حکم ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کس نماز کی کتنی رکعتیں ہیں اور کیسے پڑھنی ہیں، یہ رسول(ص) نے بتایا۔ اسی طرح زکات کا حکم ہے، لیکن زکات کا نصاب کیا ہے اور اس کے احکام کیا ہیں یہ رسول(ص) نے بتائے۔ اسی طرح قرآن میں اولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے، لیکن یہ اولی الامر کون ہیں یہ رسول(ص) ہی بتائیں گے اور رسول(ص) نے غدیر خم سمیت کئی مقامات پر اس بات کا برملا اظہار فرمایا کہ یہ ولایت صرف علی(ع) کی ہے۔
2) قرآن اور اہل بیت(ع) اطہار قدم بقدم ساتھ ہیں۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے قرآن کی مخالفت کی وہ کبھی اہل بیت(ع) میں شامل نہیں ہو سکتے۔ امّہات المؤمنین میں سے ایک امّ المؤمنین نے قرآن کی مخالفت کی، قرآن نے ان کو بعد از رسول(ص) گھروں میں رہنے کا حکم دیا مگر آپ نہ صرف گھر سے باہر نکلیں بلکہ لشکر لے کر باقاعدہ امام وقت و برحق کے خلاف بغاوت کی۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ
3) امّہات ہرگز اھل بیت(ع) میں شامل نہیں۔
علاوہ ازیں حدیث کساء میں امّ سلمہ(ع) کا عبا یا ردا میں شامل ہونے کی کوشش اور رسول(ص) کا اس بات سے منع کرنا کہ تم اھل میں شامل نہیں ہو، یہ بات پوائنٹ نمبر 3 کا واضح ثبوت ہے۔
حدیث کساء کا واقعہ امّ سلمہ(س) کے گھر پر پیش آیا، چنانچہ وہ معروف حدیث کساء جس کی سند مخدوش ہے وہ غلط ثابت ہوتی ہے۔ صحیح احادیث کی روشنی میں یہ واقعہ امّ سلم کے گھر پر پیش آیا۔
آیت تطہیر کے مصداق صرف علی و حسن و حسین و فاطمہ(علیھم السلام) ہیں اور امّہات ان میں شامل نہیں۔
الحمد للہ الّذی اوّلا وآخرا و ظاھرا و باطنا
خاکسار: ابو زین الہاشمی
No comments:
Post a Comment