Friday, May 30, 2014

کیا آئن سٹائن شیعہ تھا؟


٭کیا آئن سٹائن شیعہ تھا؟٭

سوال) کہتے ہیں کہ مشہور سائنسدن البرٹ آئن سٹائن کے عظیم شیعہ مرجع آیت اللہ العظمی برجردی سے تعلقات تھے اور یہ کہ وہ شیعہ ہو گیا تھا، ان باتوں میں کتنی صداقت ہے؟

جواب) آئن سٹائن آیت اللہ بروجردی سے خط و کتابت رکھتا تھا اور ان سے شدید متاثر تھا۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ آخر میں شیعہ ہو گیا تھا۔۔۔ خصوصا معراج پر جانے والی شیعہ روایتیں جن میں درج ہے کہ رسول(ص) ساتوں آسمان کی سیر کر کے واپس آئے تو آپ(ص) کا بستر ابھی گرم تھا یا کنڈا ہل رہا تھا۔۔۔ یہ باتیں اس کی تھیوری *Theory of Relativity* کو ثابت کرتی تھیں۔

کہا جاتا ہے کہ سیّد بروجردی اور آئن سٹائن کے درمیان رابطے کا ذریعہ ایک ایرانی سائنسدان دکتر حسابی بنا جس نے اپنی تعلیم امریکہ سے مکمّل کی تھی اور آئن سٹائن اس کے اساتذہ میں سے تھا۔

آیت اللہ العظمی سیّد بروجردی کی آفیشل ویب سائٹ پر اس خط و کتابت کا تفصیل سے ذکر ہے؛

http://broujerdi.org/content/view/27/70

لیکن معتبر ذرائع سے ابھی اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ کہتے ہیں کہ آئن سٹائن نے اپنی عمر کے آخر میں ایک کتاب لکھی جس میں آیت اللہ بروجردی کا ذکر کرتے ہوئے تشیّع کی طرف میلان کو ظاہر کیا تھا۔ لیکن ان کی اس کتاب کو چھپنے نہیں دیا گیا اور ایک ایرانی پروفیسر ابراھیم مہدوی نے کچھ عرصہ پہلے یہ کتاب ایک یہودی سے گرانقدر قیمت پر خریدی جس کو آئن سٹائن نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے اور ہر صفحے پر اس کے دستخط ہیں۔ اس کتاب میں قرآن اور احادیث سے اپنے نظریات کی بات کی ہے اور بروجردی کے لئے بہت بڑے الفاظ لکھے ہیں۔۔۔ یہ خبر آج سے کچھ سال پہلے پڑھی تھی لیکن اس کتاب کا فارسی ترجمہ ابھی تک نہیں آیا یا شاید میرے علم میں نہیں۔

جہاں تک آئن سٹائن کے شیعہ ہونے کی بات ہے تو سیّد بروجردی کے نواسے آیت اللہ جواد علوی بروجردی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ آئن اسٹائن شیعہ ہوا تھا۔۔۔ لیکن ان کے آیت اللہ بروجردی سے روابط یا اسلام سے متاثر ہونا بالکل ممکن ہے۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

مولا علی(ع) کا ابوجہل کی بیٹی سے شادی کا جھوٹا افسانہ


سوال) السلام علیکم!کیا اس حدیث میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ صحیح ہے؟؟ برادر ابوزین اس حدیث میں بیان کئے گئے واقعے سے متعلق علماء تشیع کا کیا موقف ہے کیا حضرت امیر المومنین ع نے واقعی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ کیا تھا؟

متن حدیث:عن المسور بن مخرمة أنه قال :" إن عليا خطب بنت أبي جهل ، فسمعت بذلك فاطمة فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت : يزعم قومك أنك لا تغضب لبناتك ، وهذا علي ناكح بنت أبي جهل ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فسمعته حين تشهد يقول : أما بعد ، أنكحت أبا العاص بن الربيع فحدثني وصدقني ، وإن فاطمة بضعة مني وإني أكره أن يسوءها ، والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وبنت عدو الله عند رجل واحد ، فترك علي الخطبة " وفي رواية للبخاري " فاطمة بضعة مني فمن أغضبها أغضبني " .... !!!البخاري رقم 3523 ، 3556 ، ومسلم برقم 2449

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں) پیغام نکاح دیا، اس کی اطلاع جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئیے یہ علی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا:میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ پڑھتے سنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امابعد:

"میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب رضی اللہ عنہا کی، آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) شادی کرائی تو انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا)ایک ٹکڑا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا۔ "(صحیح بخاری كتاب فضائل الصحابة حدیث نمبر: ٣٨٢٩)۔۔

محمد بن عمرو بن حلحلہ نے ابن شہاب سے یہ اضافہ کیا ہے، انہوں نے علی بن حسین سے اور انہوں نے مسور رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے بنی عبدشمس کے اپنے ایک داماد کا ذکر کیا اور حقوق دامادی کی ادائیگی کی تعریف فرمائی۔ پھر فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات بھی کہی سچی کہی اور جو وعدہ بھی کیا پورا کر دکھایا۔"

جواب) یہ حدیث اہلسنّت کے علمی پیمانوں پر پورا نہیں اترتی، اور ہمارے ہاں تو اس سلسلے میں کوئی معتبر حدیث ہے ہی نہیں۔ اس میں سب سے پہلا راوی مسور بن مخرمہ ہے جو امام علی(ع) کا دشمن شمار ہوتا تھا۔ یہ عبداللہ ابن زبیر کے ساتھیوں میں سے تھا اور جب خانۂ کعبہ میں یزید کی فوج نے منجنیقوں سے حملہ کیا تو مسور بن مخرمہ مارا گیا تھا۔ مشہور سنّی عالم ذھبی کہتے ہیں کہ یہ خوارج کے ساتھیوں میں سے بھی تھا؛

قال الزبير بن بكار كانت [الخوارج] تغشاه وينتحلونه (سیر اعلام النبلاء، ج3 ص391)

ذھبی نیز یہ بھی کہتے ہیں: قال عروة فلم أسمع المسور ذكر معاوية إلا صلى عليه۔۔۔۔۔ یعنی عروہ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی مسور بن مخرمہ کو معاویہ کا نام لیتے ہوئے نہیں سنا مگر یہ کہ معاویہ پر درود بھیجے۔

اب ایسے شخص کی روایت تو ویسے ہی رد ہو جاتی ہے اور جبکہ وہ روایت اپنے دشمن کے بارے میں کرے تو اس کو عقل بھی قبول نہیں کرتی۔

اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ مسور بن مخرمہ اس واقعے کے وقت بچہ تھا۔ علماء نے نقل کیا ہے کہ مسور دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوا، اور یہ واقعہ کم و بیش 8 ہجری کا بتایا جاتا ہے۔ تو چھ سالہ بچہ کیسے روایت نقل کر سکتا ہے؟

اس جھوٹی روایت کو رد کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ قرآن سے متصادم ہے، قرآن واضح طور پر چار شادی کی اجازت دیتا ہے اور اس سلسلے میں کوئی تخصیص نہیں کرتا۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ ص اوروں کی بیٹیوں پر سوکنیں بٹھانے کی اجازت دیں اور اپنی بیٹی پر نہ دیں۔۔۔ کیا یہ عدل کے منافی نہیں؟ اور رسول اللہ(ص) جو تمام عالم اسلام کے لئے نبی ہیں اپنی بیٹی کو اس طرح کی تخصیص دے دیں۔

پس یہ روایت جھوٹی ہے، اور اس کا اعتبار کرنا درست نہیں۔

ہم مولا علی(ع) کے تمام دشمنوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔

والسّلام

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

ایران کے خلاف ایک سازش کا ازالہ


بہت عرصے سے شرپسند حضرات پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ایران میں سنّیوں کے حقوق نہیں، ان کو مساجد بنانے کی اجازت نہیں، اسکولوں کالجز میں ایڈمشن نہیں ملتے، پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی نہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

سو عرض ہے کہ ان باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ایران کے کچھ صوبوں میں سنّی اکثریت میں ہیں جیسے سیستان و بلوچستان، گلستان جہاں ترکمن سنّی ہیں، اور کردستان جہاں کرد ہیں جو اکثر شافعی ہیں۔ ان صوبوں میں کثرت سے سنّی مساجد ہیں اور سنّی بہت آزادی سے ان مساجد میں اذانیں کہتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ یہاں تک کہ مشہد و اصفہان و شیراز جیسے شہروں میں جہاں شیعہ اکثریت میں ہیں، اہلسنّت کی متعدد مساجد ہیں۔

ایران کے گوش و کنار میں سنّی مدارس ہیں جن کے معلّمین کو تنخواہیں حکومت دیتی ہے۔ ایران نے سنّی مدارس اور شیعہ حوزہ جات کے درمیان روابط بڑھانے کی بھی خاطر خواہ کوشش کی ہے، لہذا ہم نے بہت دفعہ دیکھا ہے کہ شیعہ حوزہ جات سے طلباء کو تربیتی کورسز کے لئے سنّی مدارس میں بھیجا جاتا ہے، اور متعدد جگہوں پر دونوں طرف کے علماء کی باہمی علمی کاوشیں بھی سامنے آتی ہیں۔

سنّی اکثریتی علاقوں سے پارلیمنٹ میں سنّی ممبرز بھی کثرت سے منتخب ہوتے ہیں، پس یہ کہنا غلط ہے کہ پارلیمنٹ میں سنّی نہیں ہیں۔

تمام سنّی مساجد کی تعمیر بھی حکومت کرتی ہیں اور تمام اخراجات بھی گورنمنٹ کے ذمّے ہے۔ امام بھی حکومت مقرّر کرتی ہیں جو جمعہ کے دن خطبات بھی دیتے ہیں۔

البتہ تہران میں مسلک کے نام پر مساجد نہیں ہیں۔ ایسا اس لئے کیونکہ ایران "اتحاد بین المسلمین" پر زور دیتا آیا ہے، مسلک کے نام پر مساجد اتحاد کو پارہ پارہ کر دیتی ہے۔ یہاں سنّی بھی شیعہ مساجد میں نماز پڑھتے ہیں اور ہم نے متعدد دفعہ لوگوں کو ہاتھ باندھے نماز پڑھتے بھی دیکھا ہے۔ پس کیا ضرورت ہے کہ مسلک کے نام پر مساجد بنائی جائیں؟ ایسا تو پورے ایران میں ہونا چاھئے تھا لیکن حالات کی وجہ سے دارالحکومت میں اس پر عمل ہو رہا ہے۔

عموما لوگوں کو کچھ حقائق نہیں بتائے جاتے جیسے ایران میں نام لے کر خلفاء و اصحاب کو گالیاں دینا قانونی پر جرم ہے۔ وہاں اس کی اجازت نہیں اور اس کے مرتکب شخص کو پولیس لے جاتی ہے۔ ایسا قانون تو پاکستان جیسے ملک میں بھی نہیں جہاں جو چاہے جب چاہے اہلبیت(ع) تک کی بھی شان میں گستاخی کرے، کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

سنّی نوجوان نسل بھی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہے اور کسی بھی فورم پر مسلک کا سیکشن نہیں ہے۔ ایڈمشن مقابلے کے امتحانات میں پاس ہونے کے بعد ملتے ہیں، اور ایڈمشن میں بھی کسی قسم کا تعصّب نہیں برتا جاتا۔۔ خاکسار جب تہران یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھا تو ہمارے ساتھ متعدّد سنّی اسٹوڈنٹ بھی تھے جو واضح طور پر سنّی اکثریتی صوبوں سے آئے تھے۔ علاوہ ازیں تہران کے اہم ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور متعدد صحافی و انجنیئرز سنّی ہیں، اور ہم نے بہت سے سنّی بزنس مین بھی دیکھے ہیں۔

ایران اتحاد بین المسلمین کے لئے کوشاں ہے، اور یہ بات ان لوگوں کو پسند نہیں آتی جو مسلمانوں کی صفوں میں انتشار دیکھنا چاہتے ہیں اور استعمار کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ان تمام لوگوں سے بیزار ہیں جو شیعہ سنّی کو لڑوا کر اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران تمام دنیا کے لئے نمونۂ عمل ہے۔

اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کر کے اس سازش کا پردہ چاک کریں۔

والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ

ابو زین الہاشمی
منجانب: تحریک تحفظ عقائد شیعہ

علمائے حق کے خلاف ایک سازش کا ازالہ


آجکل بعض دشمنان تشیّع دل کھول کر علمائے حقّہ کی توہین کرنے میں مشغول ہیں بالخصوص رہبر معظّم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کی۔ اس بغض و عناد کی وجہ فقط یہ ہے کہ یہ علماء ان کی کچھ مخصوص گمراہ کن باتوں کو نہیں مانتے اور مخالفت کرتے ہیں۔

حال ہی میں ایک شخص نے دو روایات کے غلط تراجم اور دیگر احادیث سے چشم پوشی کرتے ہوئے امام خامنہ ای پر تنقید کی ہے کہ ان کا ہاتھ شل ہے تو ان کے پیچھے نماز کیسے پڑھی جائے گی۔

انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے؛

وَ قَالَ الصَّادِقُ
 ع لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْقَيْدِ الْمُطْلَقِينَ وَ لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاء

امام صادق(ع): "قیدی آزاد لوگوں کی امامت نہ کرے اور فالج زدہ صحیح و سالم لوگوں کی امامت نہ کرائے۔"

من لا یحضرہ الفقیہ: ج1 ح1107

نیز یہ حدیث بھی ان لوگوں نے نقل کی؛

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ص لَا يَؤُمُّ الْمُقَيَّدُ الْمُطْلَقِينَ وَ لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاءَ وَ لَا صَاحِبُ التَّيَمُّمِ الْمُتَوَضِّينَ وَ لَا يَؤُمُّ الْأَعْمَى فِي الصَّحْرَاءِ إِلَّا أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى الْقِبْلَة

امام صادق(ع) سے منقول ہے کہ امام علی(ع) نے فرمایا: "قیدی زاداد لوگوں کو، کوئی فالج کا مریض تندرست لوگوں کو اور کوئی تیمّم والا باوضو لوگوں کو، اور اندھا بیابان میں جماعت نہ کرائے مگر یہ کہ اس کو قبلہ رخ کر دیا جائے۔"

کافی: ج3 ص376

ان احادیث کے مصداق پر مدلّل گفتگو کرنے سے پہلے ہم ان کی ہیرا پھیری کی طرف اشارہ کرنا چاھیں گے۔ انہوں نے ترجمہ میں لفظ "مفلوج" کا استعمال کیا ہے، عربی کے مطابق تو اس میں حرج نہیں کیونکہ عربی میں "مفلوج" فالج زدہ کو ہی کہا جاتا ہے۔ لیکن اردو میں یہ لفظ کسی معذور کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وہ شخص فالج کا شکار نہ بھی ہو۔ اگر حدیث کا اصل مصداق دیکھیں تو یہ کسی فالج زدہ شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کر رہا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فالج زدہ شخص افعال نماز ادا کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ نہ سجود میں ساتوں اعضائے سجدہ کو زمین پر رکھ سکتا ہے اور نہ رکوع کر سکتا ہے۔

حدیث میں "صاحب الفالج" کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا لغوی مطلب کوئی ایسا شخص ہے جو فالج کا مریض ہو۔ فالج کا اٹیک کبھی مکمّل جسم پر ہوتا ہے اور کبھی آدھے جسم پر۔ ان مدلّسین نے بہت خوبصورتی سے "صاحب الفالج" کی جگہ پر "مفلوج" کا لفط استعمال کیا ہے اور لفظ مفلوج کو معذور کے مترادف پیش کیا ہے جبکہ "معذور" "مفلوج" کا مترادف ہرگز نہیں ہے۔

اب یہاں پر لفظ "مفلوج" استعمال کر کے آیت اللہ خامنہ ای پر اٹیک کیا جا رہا ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای فالج کا شکار نہیں ہیں۔ ان کا ہاتھ ایک بم دھماکے میں تھوڑا شل ہوا، لیکن اس کے باوجود بھی آپ مکمّل طور پر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ سجدہ میں تمام اعضائے سجدہ زمین پر رکھتے ہیں اور صحتمند شخص کی طرح رکوع بھی کرتے ہیں اور قنوت میں ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں۔ البتہ اس بم دھماکے کی وجہ سے قنوت میں ہاتھ مکمّل نہیں اٹھا پاتے۔ یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ یہ لوگ کسی کی مخالفت میں کس حد تک جا سکتے ہیں اور جھوٹ اور مکرو فریب سے کام لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

قیدی کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق بھی علماء نے یہی کہا ہے کہ اس سے مراد وہ قیدی ہے جو زنجیروں میں جکڑا ہو جس کی وجہ سے وہ درست انداز میں نماز کے افعال انجام نہ دے سکے۔

اب ہم ان احادیث کے متن کی طرف آتے ہیں۔ بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چند لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔

1) قیدی
2) فالج زدہ شخص
3) کسی عذر کی وجہ سے تیمّم کرنے والا
4) اندھا

لیکن ہم دیگر احادیث میں دیکھتے ہیں کہ ان مخصوص لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت بھی آئی ہے۔ مثلا قیدی یا غلام کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت کے بارے میں درج ذیل احادیث ہیں؛

عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: قُلْتُ لَه الصَّلَاةُ خَلْفَ الْعَبْدِ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهِ إِذَا كَانَ فَقِيهاً وَ لَمْ يَكُنْ هُنَاكَ أَفْقَهُ مِنْهُ الْحَدِيثَ.

زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر(ع) سے غلام کی اقتداء کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: جب وہ فقیہ ہو اور وہاں اس سے زیادہ بڑا کوئی فقیہ نہ ہو تو پھر جائز ہے۔

کافی: ج3 ص375

َعنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَحَدِهِمَا ع أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْعَبْدِ يَؤُمُّ الْقَوْمَ إِذَا رَضُوا بِهِ وَ كَانَ أَكْثَرَهُمْ قُرْآناً قَالَ لَا بَأْسَ بِهِ 

محمد بن مسلم نے امام باقر یا امام صادق(ع) میں سے کسی سے پوچھا کہ آیا غلام لوگوں کو نماز پڑھا سکتا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ کوئی مضائقہ نہیں۔

تہذیب الاحکام: ج3 ص29

پس ان روایات میں جواز بیان ہوا ہے، اور جو حدیث ان مدلّسین نے بیان کی ہے اس میں غلام یا قیدی کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرنے کو کراہت پر حمل کریں گے یعنی ان کے پیچھے نماز جائز تو ہے لیکن مکروہ ہے۔ یا ہم یوں کہیں گے کہ ان قیدیوں کے پیچھے نماز پڑھنی منع ہے جو زنجیر یا رسّی میں بندھے ہوں جس کی وجہ سے وہ افعال نماز انجام دینے پر قادر نہ ہوں۔

اب ہم تیمّم کرنے والے شخص کے پیچھے امامت پر بات کرتے ہیں۔ مدلّسین کی پیش کردہ روایت کے مطابق تیمّم کرنے والے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا حرام ہے، اور یہی ان کا مطلب ہے، لیکن یہ سب احادیث سے نابلد ہونے کی وجہ سے ہے، یا وہ ان احادیث کے بارے میں جانتے ہیں لیکن عوام کو دھوکہ دینے کے لئے چھپاتے ہیں۔ ہم یہاں وہ احادیث پیش کرتے ہیں جن میں وضو کرنے والوں کا تیمّم کرنے والوں کے پیچھے نماز پڑھنے کا جواز ہے؛

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ رَجُلٍ أَجْنَبَ ثُمَّ تَيَمَّمَ فَأَمَّنَا وَ نَحْنُ طَهُورٌ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهِ


عبداللہ بکیر کہتےہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جو مجنب ہوا تھا لیکن (پانی نہ ملنے کی وجہ سے) تیمّم کیا اور پھر ہمیں نماز پڑھائی جبکہ ہم نے وضو کیا ہوا تھا۔ آپ(ع) نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔

تہذیب الاحکام: ج3 ص167

عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فِي الرَّجُلِ يُجْنِبُ وَ لَيْسَ مَعَهُ مَاءٌ وَ هُوَ إِمَامُ الْقَوْمِ قَالَ نَعَمْ يَتَيَمَّمُ وَ يَؤُمُّهُم


امام صادق(ع) سے پوچھا گیا اس شخص کے بارے میں جو ایک قوم کا پیشنماز ہے اور جنب ہو گیا، مگر اس کے پاس غسل کے لئے پانی نہیں۔ تو آپ(ع) نے فرمایا کہ وہ تیمّم کرے اور لوگوں کو نماز پڑھائے۔

تہذیب الاحکام: ج3 ص167

یہاں پر بھی یہ ثابت ہوا کہ وضو کرنے والوں کے لئے تیمّم کرنے والے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں جو منع آیا ہے ہم اس کو کراہت پر محمول کریں گے، یعنی یہ جائز تو ہے لیکن مکروہ ہے۔ اور علماء کرام نے بھی یہی فرمایا ہے جیسا کہ شیخ حر عاملی اپنی تالیف "وسائل الشیعہ" میں ان روایات کو نقل کیا اور اس باب کا نام رکھا: بَابُ جَوَازِ اقْتِدَاءِ الْمُتَوَضِّئِ بِالْمُتَيَمِّمِ عَلَى كَرَاهِيَة ۔۔۔۔۔ یعنی وضو والوں کا تیمّم والوں کے پیچھے نماز کراہت کے ساتھ پڑھنے کا باب

اب ہم اندھے کے پیچھے نماز پڑھنے کی طرف آتے ہیں۔

امام صادق(ع): اگر اندھا آدمی لوگون کو نماز پڑھائے تومضائقہ نہیں ہے، اگرچہ یہی مقتدی اسے قبلہ رخ کریں۔ (تہذیب الاحکام)

امام باقر و امام صادق(ع): جب مقتدی اندھے آدمی کو پسند کریں اور وہ ان سے زیادہ قاری اور فقیہ ہو تو وہ نماز باجماعت پڑھا سکتا ہے۔ (من لا یحضرہ الفقیہ)

پس یہاں پر بھی یہ ثابت ہوا کہ اندھے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، اور مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں جو منع آیا ہے وہ کراہت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی جائز ہے لیکن مکروہ ہے۔

پس مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں قیدی، تیمّم والے، فالج زدہ اور اندھے کے پیچھے نماز پڑھنا منع نہیں ہے بشرطیکہ وہ نماز کے افعال کو درست انجام دے سکیں، بلکہ وہ روایات مکروہ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اسی لئے شیخ حر عاملی نے مدلّسین کی روایات پر باب باندھا ہے؛

بَابُ كَرَاهَةِ إِمَامَةِ الْمُقَيَّدِ الْمُطْلَقِينَ وَ صَاحِبِ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاء

یعنی قیدی کا آزاد لوگوں کو اور فالج زدہ کا صحیح و سالم کو امامت کرانے میں کراہت کا باب۔

پس بالفرض ہم رہبر کبیر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سیّد علی خامنہ ای کو فالج زدہ بھی مان لیں تو بھی یہ احادیث مکروہ ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔

معصومین(ع) کے نام پر معصومین(ع) کے اقوال کو تروڑ مروڑ کر آدھی بات پیش کر کے مومنین کے دلوں میں شکوک پیدا کرنے والوں پر ہم لعنت بھیجتے ہیں۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

کامل نماز کا طریقہ


حماد بن عیسی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ امام صادق(ع) نے مجھ سے کہا: کیا درست طریقے سے نماز پڑھ سکتے ہو؟

میں نے کہا: میرے آقا میں نے حریز کی کتاب کو یاد کیا ہے جو نماز کے بارے میں ہے۔

آپ(ع) نے فرمایا: تمہارے لئے کافی نہیں ہے، کھڑے ہو کر نماز پڑھو

حماد بن عیسی آپ(ع) کے برابر میں قبلہ رخ کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور رکوع و سجود انجام دیا۔

آپ(ع) نے فرمایا: اے حمّاد! ٹھیک سے نماز نہیں پڑھ رہے ہو۔ ایک شخص کے لئے کتنی بری بات ہے کہ وہ 60 یا 70 سال کی عمر کا ہو چکا ہو اور ایک کامل نماز انجام نہ دے سکتا ہو۔

حماّد کہتے ہیں کہ میں اپنی ہی نگاہوں میں شدید شرمندہ ہوا اور کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، مجھے نماز سکھائیں

امام صادق(ع) اپنے تمام قد کے ساتھ رو بقبلہ کھڑے ہوئے، اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے رانوں پر رکھا اور انگلیوں کو باہم ملایا۔ دونوں پیروں کو قریب لے کر آئے یہاں تک کہ ان کے درمیان فاصلہ تین انگلیوں کے برابر رہا، اور پیروں کی انگلیوں کو قبلہ رخ کیا اور نہایت خشوع اور سکون کے ساتھ "اللہ اکبر" کہا

اس کے بعد حمد اور قل ھو اللہ کو ترتیل اور خوبصورت قرات کے ساتھ پڑھا، اور پھر ایک سانس کے برابر وقفہ لیا۔ اورپھر دونوں ہاتھوں کو چہرے کے مقابل لے گئے اور کہا "اللہ اکبر"

اس کے بعد رکوع میں چلے گئے، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اس حالت میں کہ انگلیاں کھلی ہوئی تھیں اپنے دونوں گھٹنوں کا احاطہ کیا اور گھٹنوں کو پیچھے اس طرح سے کیا کہ ان کی پشت ہموار ہو گئی، اگر پانی یا کوئی روغن بہایا جاتا تو وہ ہرگز نہ گرتی کیونکہ آپ کی پشت بالکل ہموار تھی۔ گردن کو جھکا کر اپنی آنکھوں کو بند کیا اور تین بار بڑے آرام و متانت سے کہا؛

سبحان ربی العظیم وبحمدہ

اس کے بعد کھڑے ہو گئے اور جب حالت سکون میں آگئے تو فرمایا: سمع اللہ لمن حمدہ

اسی طرح کھڑے ہو کر تکبیر کہی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو چہرے کے مقابل لے گئے۔ اس کے بعد سجدے میں گئے اور اپنے ہتھیلیوں کو اس حالت میں کہ انگلیاں باہم ملی ہوئی تھیں اپنے چہرے کے برابر رکھا اور تین بار کہا؛

سبحان ربی الاعلی وبحمدہ

اور اپنے بدن میں کسی عضو کو نہیں ہلایا، اور آٹھ اعضاء کے ساتھ سجدہ کیا۔ دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، دونوں پیروں کے انگوٹھے، پیشانی اور ناک۔

آپ(ع) نے فرمایا: سجدہ میں ان آٹھ اعضاء میں سے سات اعضاء کا زمین پر رکھنا واجب ہے، اور یہ وہی ہیں جن کے بارے میں اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا: وَ أَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً اور یہ اعضاء دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنوں، دونوں پیروں کے انگوٹھے، اور پیشانی ہیں۔ اور ناک کو زمین پر رکھنا سنّت ہے۔

اس کے بعد سر کو سجدہ سے اٹھایا، اور جب زمین پر حالت سکون میں بیٹھ گئے تو اللہ اکبر کہا اور اپنے بائیں طرف اس حالت میں بیٹھے کہ دائیں پیر کے اوپری حصّے کو (جس پر مسح ہوتا ہے) بائیں پیر کی پشت پر رکھا۔ اور کہا؛

استغفر اللہ ربی واتوب الیہ

اور بیٹھ کر ہی دوبارہ تکبیر کہی اور دوسرے سجدے میں گئے اور وہی پڑھا جو پہلے سجدے میں پڑھا۔ رکوع و سجود میں اپنے کسی عضو کو کسی اور عضو پر نہیں رکھا، اور اپنے ہاتھوں کو (سجدے میں) بدن سے باہر کی جانب رکھا اور کہنیوں کو زمین پر نہیں رکھا۔ اسی طرح سے دو رکعت نماز پڑھی اور پھر تشہد کے لئے ایسے بیٹھے کہ ہاتھوں کی انگلیاں باہم ملی ہوئی تھیں۔ اور جب تشہد کے بعد سلام پھیرا تو فرمایا: اے حمّاد اس طرح نماز پڑھا کرو۔

(کافی ج6 ص141 طبع دارالحدیث، من لا یحضرہ الفقیہ ج1 ص300، تہذیب الاحکام ج2 ص81)

مذکورہ حدیث مشایخ ثلاثہ (کلینی و صدوق و طوسی) نے نقل کیا ہے اور تینوں کی اسناد صحیح ہیں۔

اس حدیث سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں؛

اوّل) یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ نماز کی ہمارے آئمہ(ع) کی نگاہوں میں کتنی اہمیت تھی، ان کی نگاہ میں صرف نماز پڑھ لینا کافی نہیں بلکہ نماز کو مکمّل طریقے سے پڑھنا ضروری ہے

دوّم) اس سے ان لوگوں کی بھی رد ہوتی ہے جو مروّجہ نماز کو نماز نہیں سمجھتے، بلکہ کچھ ناموں کو یا نعروں کو یا دیگر افعال کو نماز کا رتبہ دیتے ہیں

سوّم) اگر آئمہ(ع) کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو نماز کو احسن طریقے سے ادا کر کے خدا کی خوشنودی حاصل کریں

چہارم) اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آئمہ(ع) اپنے شیعوں کی تربیت کے لئے کتنے فکرمند رہتے تھے، اس بارے میں ہمارے علماء و عمائدین کو سوچنا چاھئے۔

اصلاح نماز پر ہماری پرانی سیریز کی روشنی میں یہ حدیث پڑھیں تو ان تحریروں کی بھی تاکید مکرّر ہو جاتی ہے۔

وما علینا الاّ البلاغ

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

بچوں کی تکریم



اسلام کی خوبصورت تعلیمات میں سے ایک بچّوں کی تکریم اور احترام کا حکم ہے، تاکہ ایسے لوگ مستقبل کے لئے پروان چڑھیں جن کی عزّت نفس موجود ہو، اور سالم و صالح بدن اور روح کے ساتھ معاشرے کی تشکیل نو کریں۔ اسی لئے رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے؛

اکرمو اولادکم واحسنو آدابکم

یعنی اپنی اولاد کی تکریم کرو اور بہترین آداب کے ساتھ ان کے ساتھ معاشرت کرو


اگر بچوں کی تکریم اور احترام کیا جائے تو وہ صاحب فضل اور شرافت ہوں گے، اور وہ دوسروں کی تکریم کرنا جانیں گے، لیکن اگر ان کی تحقیر یا اہانت کی جائے تو ان کے فضل کی نشوونما متوقّف ہو جائے گی۔ حضرت ختمی مرتب(ص) فرماتے ہیں؛

اذا سمّیتم الولد فاکرموہ واوسعوا لہ فی المجالس ولا تقبّحو لہ وجھا

"جب اپنی اولاد کا نام لو تو اس کی تکریم کرو، اور ان کے لئے بیٹھنے کی جگہ قرار دو (اس کا احترام کرو) اور اس کے ساتھ بدخلقی سے پیش نہ آؤ۔"


رسول اللہ(ص) کی زندگی میں بھی ہمیں ملتا ہے کہ آپ بچوں کی تکریم کا خاص خیال رکھتے تھے، جب آپ کی خدمت میں کوئی بچہ ولادت کے بعد نام رکھوانے کے لئے پیش کیا جاتا تو آپ فورا اس کو گود میں لے لیتے، کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بچّہ نے آپ کی گود میں ہی کپڑے خراب کر دیئے، آس پاس کے لوگ غصّے سے بچے پر چیختے لیکن رسول اللہ(ص) ان کو منع کرتے۔

ایک حدیث ہمیں یوں ملتی ہے؛

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ص بِالنَّاسِ الظُّهْرَ فَخَفَّفَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأَخِيرَتَيْنِ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ لَهُ النَّاسُ هَلْ حَدَثَ فِي الصَّلَاةِ حَدَثٌ قَالَ وَ مَا ذَاكَ قَالُوا خَفَّفْتَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأَخِيرَتَيْنِ فَقَالَ لَهُمْ أَمَا سَمِعْتُمْ صُرَاخَ الصَّبِي

عبداللہ ابن سنان امام صادق(ع) سے نقل کرتے ہیں، آپ(ع) نے فرمایا: "رسول اللہ(ص) ایک دفعہ نماز ظہر لوگوں کے ساتھ (جماعت میں) پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ناگہان آخری دو رکعتوں کو مختصر پڑھا (مستحبات کو چھوڑ کر)۔ جب آپ فارغ ہوئے تو لوگوں نے نے پوچھا کہ آیا نماز میں کچھ ہو گیا؟ تو آپ(ص) نے پوچھا کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے آخری رکعتوں کو بہت مختصر پڑھا۔ تو آپ(ص) فرماتے ہیں: مگر تم لوگوں نے بچّے کی رونے کی آواز نہیں سنی؟

(کافی: ج6 ص48)


مذکورہ حدیث کی سند صحیح ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسول(ص) بچوں کی تکالیف اور ان کی ضروریات کا کتنا خیال رکھتے تھے۔

نقل کیا گیا ہے کہ رسول(ص) عملی طور پر بھی بچوں کی تکریم کرتے تھے۔ جب کہیں روانہ ہوتے تو راستے میں لوگوں کے بچّے آپ کے احترام میں کھڑے ہو جاتے۔ آپ ان بچوں کو اٹھاتے، کسی کو گود میں لیتے اور کسی کو اپنی پشت پر چڑھاتے اور اپنے اصحاب سے فرماتے کہ بچّوں کو گود میں لیا کرو اور اپنی دوش پر چڑھایا کرو۔۔۔ بچّے اس بات سے بہت خوش ہوتے اور ان یادوں کو کبھی فراموش نہ کرتے، جب بڑے ہونے کے بعد کبھی جمع ہوتے تو ایک دوسرے کو یہ بات سنا کر فخر کرتے۔ (المحجۃ البیضاء: ج3 ص367)

آپ(ص) کی عادت تھی کہ جب بھی کسی بچّے سے ملتے اس کو سب سے پہلے خود سلام کرتے تاکہ اس کی تکریم ہو اور تاکید کرتے کہ ان کی اس سنّت پر عمل کیا جائے۔ چنانچہ مروی ہے؛

إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص مَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ

رسول اللہ(ص) کچھ بچوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے ان کو سلام کیا۔ (مکارم الاخلاق: ص16)

شیخ صدوق کی امالی میں ایک حدیث ہے جس میں رسول اللہ(ص) فرماتے ہیں کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کو میں مرتے دم تک ترک نہیں کروں گا تاکہ میرے بعد یہ میری سنّت بن جائیں (جن پر لوگ عمل کریں)۔ آپ(ص) کے فرمان کے مطابق ان میں سے ایک چھوٹوں پر سلام ہے۔ (امالی صدوق ص44، بحارالانوار: ج16ص215)

جبکہ ہمارے ہاں دیکھا گیا ہے کہ بڑے اپنے بچّوں کو سلام نہ کرنے پر ٹوکتے ہیں۔ اگر ان کی عادت سلام میں پہل کرنا نہیں ہے تو کسی بڑے کے سلام کرنے سے خود شرمندہ ہو جائیں گے اور اپنی سلام نہ کرنے کی عادت کو ترک کر دیں گے۔ بعض منچلے تو ایسے ہیں کہ کسی چھوٹے کے سلام نہ کرنے پر اس کو "وعلیکم السلام" کہہ کر شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کیا ہم اپنے رسول(ص) کی ان سنّتوں پر عمل کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچّوں اور دوسرے بچوں کی اس طرح تکریم کرتے ہیں؟ کیا ہم ان کو گود میں اٹھا کر پیار کرتے ہیں؟

جب بچوں کے ساتھ تکریم کرنے پر اتنی اہمیت ہے تو ہم میں جو عمر، علم اور کردار کے لحاظ سے بڑے ہیں ان کی تکریم کی اہمیت کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔

ان سنّتوں پر عمل کیجئے تاکہ ہمارا معاشرہ اخلاقی لحاظ سے بہترین معاشرہ ہو۔

وما علینا الا البلاغ

خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

نسل اور نسب کی فضیلت نہیں


٭نسل اور نسب کی فضیلت نہیں: فضیلت صرف تقوی کی ہے٭

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ الْمُتَوَكِّلِ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيُّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رِئَابٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْحَذَّاءِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ لَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَكَّةَ قَامَ عَلَى الصَّفَا فَقَالَ يَا بَنِي هَاشِمٍ يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّي ر
َسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ وَ إِنِّي شَفِيقٌ عَلَيْكُمْ لَا تَقُولُوا إِنَّ مُحَمَّداً مِنَّا فَوَ اللَّهِ مَا أَوْلِيَائِي مِنْكُمْ وَ لَا مِنْ غَيْرِكُم إِلَّا الْمُتَّقُونَ أَلَا فَلَا أَعْرِفُكُمْ تَأْتُونِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْمِلُونَ الدُّنْيَا عَلَى رِقَابِكُمْ وَ يَأْتِي النَّاسُ يَحْمِلُونَ الْآخِرَةَ أَلَا وَ إِنِّي قَدْ أَعْذَرْتُ فِيمَا بَيْنِي وَ بَيْنَكُمْ وَ فِيمَا بَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ بَيْنَكُمْ وَ إِنَّ لِي عَمَلِي وَ لَكُمْ عَمَلُكُم
امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ(ص) نے مکّہ فتح کیا تو آپ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور فرمایا:

"اے بنی ھاشم! اے بنی عبدالمطلب!

میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اور میں تمہارا شفیق اور دلسوز ہوں، مجھے تم سے محبّت ہے۔۔۔ لہذا یہ مت کہو کہ محمد(ص) ہم میں سے ہیں۔۔۔ اللہ کی قسم تم (بنی ہاشم) میں سے اور دیگر (قبائل و اقوام) میں سے متّقین کے سوا میرا کوئی دوست نہیں ہے۔

جان لو میں تمہیں روز محشر نہیں پہچانوں گا کیونکہ تم نے دنیا کی محبّت کو دوش پر سوار کیا ہوگا جبکہ دیگر لوگوں نے آخرت کو دوش پر اٹھایا ہوگا۔

یاد رکھو! میں نے اپنے اور تمہارے درمیان، اور اللہ اور تمہارے درمیان کسی قسم کا عذر اور بہانہ نہیں چھوڑا۔ میرے ذمّے میرا عمل ہے اور تمہارے ذمّے تمہارا عمل ہے۔"

(کافی: ج8 ص182، صفات الشیعہ: حدیث8)

رجال الحدیث:

اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں

درایت الحدیث:

اس روایت کو شیخ کلینی اور صدوق دونوں نے نقل کیا۔ شیخ صدوق کی سند صحیح ہے۔ یہ حدیث حکم قرآنی کے بھی عین مطابق ہے "انّ اکرمکم عنداللہ اتقاکم"، لہذا متن اور سند دونوں اعتبار سے یہ درجۂ اعتبار پر فائز ہے۔

فوائد الحدیث:

کسی بھی نسل کو برتری حاصل نہیں ہے، معیار خون اور نسل نہیں بلکہ تقوی اور پرھیزگاری ہے۔ مومن مومن کا کفو ہے، لہذا کوئی بھی مومن کسی بھی مومنہ سے شادی کر سکتا ہے، نسلی برتری اور تفاخر کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔

سادات کا احترام امّتی اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ان کو خاندان عصمت سے نسبت ہے۔ لیکن سادات کو تفاخر کا اظہار نہیں کرنا چاھئے اور نہ ہی دیگر نسلوں کو پست سمجھنا چاھئے، بلکہ اس نسبت کی وجہ سے ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سادات کو تو تقوی اور پرھیزگاری میں باقی سب سے افضل ہونا چاھئے تب جا کر وہ اپنے آپ کو فخریہ سادات قرار دے سکتے ہیں۔

یہ نسبت روز محشر کسی قسم کا فائدہ نہیں دے سکتی۔ اور یاد رہے کہ نبی(ص) سے نسب جوڑنے والے وہاں ہوں اور ان کے نامۂ اعمال سبک ہوں اور حقوق الناس کی رعایت نہ کرتے ہوں تو یقینا یہ لوگ کن کو شرمندہ کریں گے؟

اللہ تعالی ہم سب کی ہدایت کرے۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

کونڈوں کی شرعی حیثیت


س) کیا کونڈے جائز ہیں؟ کیا یہ بات درست ہے کہ شیعہ اس لئے اس دن کو مناتے ہیں کیونکہ اس دن امیر معاویہ کی وفات ہوئی؟

ج) اس سوال کی کئی جہات ہیں، مؤمنین بلکہ مسلمین بلکہ کسی بھی انسان کو کھانا کھلانا یا اطعام کرنا یا دعوت کرنا باعث ثواب ہے۔ اگر اس رسم کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ باعث ثواب ہے۔

اس سوال کی دوسری جہت یہ ہے کہ کیا رجب کے مہینے میں ہی اس کو منانے کی کوئی شرعی دلیل ملتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں کوئی شرعی دلیل نہیں ملتی کہ 22 رجب کو فلاں کیفیت کے ساتھ دعوتیں کی جائیں۔ ہاں اگر مومنین کو اطعام کی نیّت سے ہے تو کسی بھی دن خوب رہے گا، لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ 22 رجب کو ہی اس خاص کیفیت سے کونڈے کرنے کا کوئی حکم معصوم کی طرف سے صادر ہوا ہے۔

شاید آپ میں بہت سوں کے لئے یہ بات نئی ہو، یہ کونڈے برّصغیر کی رسم ہے، اس کی شروعات بیسویں صدی کے اوائل یا انیسویں صدی کے اواخر میں اتر پردیش سے ہوئی۔ وہاں سے پھر یہ پنجاب و سندھ وغیرہ بھی پہنچا۔ اسی لئے برّصغیر کے دیگر علاقوں جیسے مقبوضہ جمّوں و کشمیر، لداخ و بلتستان، گلگت و پاراچنار وغیرہ میں ایسی کوئی رسم نہیں ہے۔ برّصغیر سے باہر ایران و عراق، افغانستان، ترکی، لبنان، بحرین، شام و آذربائجان میں اس کا تصوّر بھی محال ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ مشہور کہانی جو کونڈوں کے موقعے پر پڑھی جاتی ہے خالص ہندوستانی اختراع ہے۔

یہاں اس سوال کے تیسرے جہت پر کلام کریں گے، اور وہ ہے لکڑہارے کی مشہور کہانی جو کونڈوں کے مواقع پر پڑھی جاتی ہے۔ یہ کہانی کافی لمبی چوڑی ہے جس کا ذکر طوالت کا باعث بنے گا، مختصر یہ کہ کسی لکڑہارے کے گھر پر فاقے ہو رہے تھے تو امام صادق(ع) نے ان کو خاص کیفیت میں پوڑیاں پکا کر کونڈوں میں بھر کر کھلاؤ۔ اس لکڑہارے نے ایسا کیا تو اس کی قسمت جاگی خزانہ ملا۔ اس کی بیوی پہلے کسی وزیر کے گھر پر خادمہ تھی، جب اس کی قسمت جاگی تو وزیر کی بیوی کو ان کونڈوں کے اسرار کا پتہ چلا لیکن اس نے ماننے سے انکار کیا۔ اس انکار کی اس کو سخت سزا ملی، وزیر کو اپنی وزارت سے ہٹا دیا گیا۔ بادشاہ کا بیٹا غائب ہوا تو دشمنوں نے افواہ اڑائی کہ کہیں اس وزیر نے تو بیٹے کو ہلاک نہیں کیا۔ وزیر کی بیوی خربوزہ یا تربوز خرید رہی تھی ان کو پکڑ لیا گیا، بادشاہ نے اس کے ہاتھ میں رومال دیکھ کر کہا کہ اس میں کیا ہے تو وزیر نے کہا خربوزہ ہے لیکن کھول کر دیکھا گیا تو بادشاہ کے بیٹے کا سر نکلا۔ ان کو قتل کرنے کی سزا ہوئی، جب میاں بیوی بیٹھے تو انہوں نے سوچا کہ آخر ان سے کیا غلطی ہوئی ہے، تو بیوی نے بتایا کہ اس نے کونڈوں کا انکار کیا تھا، اس پر دونوں توبۂ نصوح کرتے ہیں اور کونڈوں کی منّت مانتے ہیں۔ جب بادشاہ نے دوبارہ بلایا اور رومال کھولا تو بیٹے کا سر نہیں تھا بلکہ وہ خربوزہ ہی تھا۔ بادشاہ یہ دیکھ کر سٹپٹا گیا تو وزیر نے کونڈوں کی کرامتیں سنائیں تو بادشاہ ششدر رہ گیا (ہم نے کہانی مختصر طور پر نقل کفر کفر نباشد کے مصداق لکھی ہے)۔

ہم نے یہ کہانی بہت مختصر کر کے سنائی ہے، اس پوری کہانی کو پڑھنے کے بعد اس بناوٹی کہانی پر لب کشائی کے لئے بھی الفاظ نہیں۔ واضح ہے کہ یہ کہانی یوپی کے کسی بانکے نے بنائی ہے، کیونکہ امام جعفر صادق(ع) کے دور میں بادشاہت میں وزارت کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔ امویوں کے دورخلافت میں وزیر اعظم کا کوئی عہدہ نہیں ملتا، امام(ع) کا آخری دور عباسیوں کے عروج حاصل کرنے کا زمانہ تھا۔ اس میں بھی اس منصب کا کوئی وجود نہیں ملتا، بعد میں جب عباسی حکومت مستحکم ہوئی تو اس منصب کو بنایا گيا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مدینہ میں کسی قسم کی بادشاہت تھی ہی نہیں، بادشاہ کا دارالحکومت اموی دور میں دمشق تھا اور عباسیوں نے بغداد کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ لہذا اس کہانی پر کچھ کہنا وقت ضائع کرنے کے برابر ہے۔

اب یہ تو واضح ہے کہ یہ کہانی معصوم(ع) سے کسی طور منسوب نہیں، تو اس کہانی کا پڑھنا کیسا ہے؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ جب کسی واقعے کا جعلی ہونا ثابت ہو جائے تو اس کو نقل کرنا معصومین(ع) پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ اگر بالفرض جعلی ہونا واضح نہ ہوتا تب بھی اس کا کسی مستند کتاب میں موجود نہ ہونا ہی اس کہانی کو پڑھنے کے عدم جواز کے لئے کافی تھا۔

سوال کی آخری جہت یہ ہے کہ کیا اس دن کو امیر معاویہ کی وفات کی وجہ سے منانا مقصود ہوتا ہے۔ اس کا جواب بہت واضح سا ہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اولاً اس الزام کا شرعی ثبوت کیا ہے؟ محض الزام لگانا کافی نہیں۔ امیر معاویہ کی وفات رجب کے مہینے میں ضرور ہوئی لیکن کوئی معتبر تاریخی حوالہ نہیں کہ 22 رجب کو ہوئی۔ دوّم یہ کہ اس دن کوئی خوشی نہیں منائی جاتی اور محض نیاز دلائی جاتی ہے جو اس لکڑہارے کی کہانی کی وجہ سے ہے۔

نتیجہ گیری:

اوپر پوری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بذات خود کونڈے کھلانے اور اطعام مسلمین میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ باعث ثواب ہے، لیکن اس دن جعلی کہانی پڑھ کر معصومین ع پر جھوٹ نہ باندھا جائے۔ اگر کونڈے دلانا مقصود ہو تو فقط اس نیّت سے کھلائیں کہ اللہ کی رضا کے لئے مومنین کو دعوت دے رہے ہیں، اور جعلی کہانی کے بجائے کوئی معتبر دعا پڑھ لیں یا سورہ یس وغیرہ کی تلاوت کر لیں۔

والسّلام علی من اتبع الھدی

خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

شیخ صدوق کی لکھی ہوئی کتاب "مدینۃ العلم" کا وجود


"مدینۃ العلم" ایک گمشدہ کتاب

س) کہا جاتا ہے کہ شیخ صدوق نے "من لایحضرہ الفقیہ" سے بھی ضخیم کتاب لکھی تھی، لیکن یہ ناپید ہو گئی۔ علامہ مجلسی نے اس کتاب کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن نہیں ملی۔ اس کی حقیقت سے آگاہ کریں نیز کیا وجوہات تھیں جو یہ کتاب ناپید ہوئی؟

ج) یہ واقعی ایک معمّہ ہے، اگر یہ کتاب اس قدر اہم ہوتی تو اس کا ناپدید ہونا سمجھ سے باہر ہے۔ کتب اربعہ اوائل سے لے کر اب تک شیعوں کے درمیان تواتر کے ساتھ موجود رہی، آخر کیا وجہ ہے کہ اتنی عظیم کتاب سے بے اعتنائی برتی گئی؟ آخر چند نسخے چند لوگوں کے پاس ہی کیوں بچے تھے؟ تاریخ میں ہمیں شیخ طوسی کے کتابخانے کے جلائے جانے کا ذکر ملتا ہے، لیکن سید مرتضی کا کتابخانہ پھر بھی بچا تھا جو شیخ طوسی سے بھی بڑا تھا، اور اس عظیم سرمائے سے شیخ طوسی بھی استفادہ کرتے رہے۔

اس کتاب "مدینۃ العلم" کا تذکرہ خود شیخ صدوق علیہ الرّحمہ نے عیون اخبار الرضا میں کیا ہے،شیخ طوسی اپنی کتاب "فہرست مصنّفات علمای امامیہ" میں شیخ صدوق کی کتب میں سے چالیس کتب کا نام لیتے ہیں جن میں سے ایک "مدینۃ العلم" ہے، مزید تصریح کرتے ہیں کہ یہ کتب حجم میں "من لا یحضرہ الفقہ" سے بھی بڑا تھا۔ شیخ نجاشی بھی اپنی کتاب میں شیخ صدوق کی 194 کتب کے نام لیتے ہیں جن میں سے آٹھویں "مدینۃ العلم" ہے۔

ابن شہر آشوب نے معالم العلماء میں ادّعا کیا ہے کہ مدینۃ العلم دس جلدوں پر مشتمل تھا، درحالیکہ من لا یحضرہ الفقیہ چار جلدوں میں ہے۔ شہید اوّل اپنی کتاب "ذکری" میں لکھتے ہیں کہ من لا یحضرہ الفقیہ اور مدینۃ العلم دونوں کو ملا لیا جائے تو یہ کافی کے برابر ہے۔

یہ کتاب شیخ بہائی کے والد حسین بن عبدالصمد کے پاس تھی اور انہوں نے کتب معتبرہ میں اس کا شمار کیا ہے، بلکہ قرین قیاس یہ ہے کہ ان کے بیٹے شیخ بہائی کے پاس بھی تھی۔ اسی زمانے میں ایک اور عالم سید حسین بن حیدر کرکی اپنے شاگرد کو دیگر کتب حدیث کا اجازہ دیتے ہیں تو کتاب مدینۃ العلم کا بھی دیتے ہیں۔

لیکن جب علامہ مجلسی کا دور آتا ہے تو یہ کتاب ایک دم نایاب ہو جاتی ہے، علامہ مجلسی نے کافی تگ و دو کی لیکن یہ کتاب ان کو نہیں ملی، کہا جاتا ہے کہ ان کے ایک حریف سید محمد میرلوحی اصفہانی کے پاس یہ کتاب موجود تھی۔ علامہ مجلسی نے ان سے درخواست کی کہ یہ کتاب ان کو استنساخ کے لئے دی جائے تاکہ وہ اس کتاب کو اپنے مجموعے بحارالانوار میں شامل کر سکیں۔ کہا جاتا ہے کہ سید محمد میرلوحی نے حسد کی وجہ سے یہ کتاب ان کو نہیں دی۔ بعد میں جب افغانیوں نے ایران پر حمل کیا اور اصفہان کو غارت کیا تو یہ کتاب بھی ضائع ہو گئی۔

ان کے بعد قاجاری دور میں ایک اور عالم سید محمد باقر شفتی نے اس کتاب کو حاصل کرنے کی بہت کوشش کی۔ کہا جاتا ہے کہ کافی پیسہ خرچ کر کے انہوں نے یمن میں اس کتاب کو ڈھونڈوایا لیکن یہ کتاب ان کو یمن سے بھی نہ ملی۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کتاب اچانک سے کیسے غائب ہو گئی؟ اگر وہ اتنی عظیم کتاب تھی تو ہمارے علماء نے طوسی سے لے کر شیخ بہائی تک اس کتاب سے نقل کیوں نہ کیا؟ ابن ادریس حلّی و سید ابن طاؤوس و علامہ حلّی و شہیدین اوّل و ثانی نے بہت سی فقہی کتب لکھیں جن میں کتب اربعہ سے کثرت سے نقل کر کے ان سے استنباط کیا۔ لیکن ہمیں مدینۃ العلم سے بہت کم روایات ملتی ہیں۔ ایک فاضل حسین کریمی کی تحقیق کے مطابق تمام کتب فقہ، رجال و حدیث و ادعیہ کو گھنگالنے کے بعد فقط 20 روایات ملتی ہیں جو مدینۃ العلم سے لی گئی تھیں۔ یہ نہایت عجیب سی بات ہے لیکن ساتھ ساتھ ہمیں کسی نتیجے تک پہنچنے میں مدد کرتی ہے۔

غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مدینۃ العلم ایک حدیث کا مجموعہ ضرور تھا لیکن اس میں بہت کم ایسی احادیث تھیں جو کتب اربعہ میں نہ ہوں۔ جس طرح اصحاب کی لکھی ہوئی اصول اربعماہ کتب اربعہ کے بعد ناپید ہو گئيں کیونکہ ساری احادیث ان کتب میں سما گئی تھیں، اسی طرح سے مدینۃ العلم کو بھی ساتھ رکھنے اور نسخہ کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہی تھی۔ لہذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مدینۃ العلم کے ناپید ہونے سے بہت بڑا حدیث کا مجموعہ ناپید ہوا، کیونکہ اس میں روایات مشہور کتب کے مجموعے سے ہٹ کر نہیں تھیں اسی لئے علماء نے قرون وسطی کے بعد اس کی حفاظت کے معاملے میں تساہل سے کام لیا۔

واللہ اعلم بالصواب

خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

27 رجب: معراج یا بعثت؟


س) کیا 27 رجب کی رات رسول اللہ(ص) کی معراج کی رات تھی یا ان کی بعثت کی رات تھی؟

جواب) اس بابت مسلمانوں میں شیعہ اور سنّی مسالک کے درمیان اختلاف ہے۔ شیعہ علماء کے درمیان مشہور یہ ہے کہ اس دن رسول اللہ(ص) کو رسالت کے لئے مبعوث کیا گیا، جبکہ اہلسنّت کے ہاں مشہور ہے کہ اس دن آپ کا سفر معراج ہوا۔

برّصغیر کے شیعوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ان کے ہاں بھی اس شب معراج ہوا، چنانچہ وہ بھی اس دن ایک دوسرے کو شب معراج کی مبارکبادی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ یقینا سنّی اکثریت کے اثرات کی وجہ سے ہے۔


دوسری طرف ایران میں اہل سنّت اس دن کو عید مبعث کے حوالے سے مناتے ہیں، یہ بھی یقینا شیعہ اکثریت کے اثرات کی وجہ سے ہے۔ البتہ ایران میں خود سنّیوں کے درمیان اس بات پر تنازعہ رہتا ہے کہ اس شب معراج ہوئی یا عید مبعث ہوا۔

اس اختلاف سے قطع نظر سوال یہ اٹھتا ہے کہ شیعہ مسلک کے مطابق رسول پاک(ص) کی معراج کس دن ہوئی؟ علماء میں مشہور یہ ہے کہ 17 رمضان کو آپ کو معراج کی سعادت نصیب ہوئی۔ بعض اقوال اور روایات کے مطابق 21 رمضان بھی ملتا ہے۔ علاوہ ازیں ہمیں ربیع الاول و محرّم کے بھی اقوال ملتے ہیں۔ یہ بات زیادہ مناسب لگتی ہے کہ رسول اللہ(ص) کو ایک سے زائد دفعہ سفر معراج نصیب ہوا، ممکن ہے کہ یہ تاریخ میں اختلاف اسی وجہ سے ہو۔ علامہ طباطبائی(قدس سرّہ) نے قرآن مجید میں سورہ نجم کی آیت 13 سے استفادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آنجناب(ص) دو دفعہ سفر معراج پر گئے۔

وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى

اور بتحقیق انہوں نے پھر ایک مرتبہ اسے دیکھ لیا،

یاد رہے کہ یہ سورہ نجم کی وہ آیات ہیں جو سفر معراج کے بارے میں ہی ہیں۔ البتہ علامہ طباطبائی نے دو دفعہ سے زیادہ سفر معراج کو بعید کہا ہے۔

داعی الی الحق: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ


سوال) کیا خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے؟ اور کیا اس کے لئے دعائے مغفرت کی جا سکتی ہے؟

جواب) ہمارے ہاں ایک عام غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جس نے خودکشی کر لی اس کا غسل و کفن، مجلس ترحیم اور رحمت و مغفرت کی دعا جائز نہیں ہے۔ یہ ایسی غلط فہمی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خودکشی کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا ہے۔

لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ خودکشی کرنے والا ایک عظیم گناہ کا مرتکب ہوا ہے، جس طرح گناہان کبیرہ کو انجام دینے سے انسان جہنم کا حقدار ہو جاتا ہے اسی طرح خودکشی کرنے سے بھی ہو جاتا ہے بلکہ اپنی جان جو کہ اللہ کی امانت ہے اس کو ختم کر دینا ایک بہت بڑا گناہ ہے۔

خودکشی اس لئے بھی سنگین ہے کیونکہ اس میں انسان کے پاس توبہ کے راستے ختم ہو جاتے ہیں۔ دیگر گناہوں میں انسان صدق دل سے استغفار کر سکتا ہے یا حقوق العباد سے متعلق گناہوں کا مرتکب ہوا ہے تو ان لوگوں سے معافی مانگ سکتا ہے یا نقصانات کا ازالہ کر سکتا ہے لیکن خودکشی کی صورت میں مذکورہ شخص اس دنیا میں ہی موجود نہیں رہتا کہ استغفار کر سکے تو پھر جہنّم اس کا مقدّر ہے۔

علاوہ ازیں خودکشی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی رحمت سے مایوس ہو گیا جو بذات خود ایک عظیم گناہ ہے۔


لیکن ان تمام باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے باقی تمام اچھے اعمال بیکار گئے اور اس کا غسل و کفن و دفن جائز نہیں۔ ہم کتنے ہی گنہگار لوگوں کو غسل دیتے ہیں تجہیز و تکفین کرتے ہیں اور ایصال ثواب وغیرہ کرتے ہیں، اسی طرح ایک خودکشی کرنے والے شخص کے لئے بھی یہ سب جائز ہے۔ جیسے تمام مسلمانوں کے لئے نماز جنازہ میں شرکت واجب کفائی ہے، اسی طرح ایک خودکشی کرنے والے مسلمان کی نماز جنازہ میں بھی شرکت واجب کفائی ہے۔

ہر شخص جس کا نامۂ اعمال کا بایاں پلڑا بھاری ہو وہ جہنّم میں جائے گا چاہے وہ مسلمان ہو۔ ہاں وہ مسلمان اپنے اعمال کی سزا پا کر جنّت میں جائے گا، یہی بات خودکشی کرنے والے کے لئے بھی ہے۔ وہ خودکشی کر کے دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہو جاتا لیکن یہ جرم اتنا سنگین ہے کہ اس کے نامۂ اعمال پر بھاری ہوگا۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

Thursday, February 13, 2014

وضو میں پیر کا مسح کیوں؟ اور پورے پیر کا مسح کیوں نہیں؟

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع أَ لَا تُخْبِرُنِي مِنْ أَيْنَ عَلِمْتَ وَ قُلْتَ إِنَّ الْمَسْحَ بِبَعْضِ الرَّأْسِ وَ بَعْضِ الرِّجْلَيْنِ فَضَحِكَ ثُمَّ قَالَ يَا زُرَارَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ نَزَلَ بِهِ الْكِتَابُ مِنَ اللَّهِ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ- فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ فَعَرَفْنَا أَنَّ الْوَجْهَ كُلَّهُ يَنْبَغِي أَنْ يُغْسَلَ ثُمَّ قَالَ- وَ أَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرافِقِ ثُمَّ فَصَّلَ بَيْنَ الْكَلَامِ فَقَالَ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ فَعَرَفْنَا حِينَ قَالَ- بِرُؤُسِكُمْ أَنَّ الْمَسْحَ بِبَعْضِ الرَّأْسِ لِمَكَانِ الْبَاءِ ثُمَّ وَصَلَ الرِّجْلَيْنِ بِالرَّأْسِ كَمَا وَصَلَ الْيَدَيْنِ بِالْوَجْهِ فَقَالَ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ فَعَرَفْنَا حِينَ وَصَلَهَا بِالرَّأْسِ أَنَّ الْمَسْحَ عَلَى بَعْضِهَا ثُمَّ فَسَّرَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ ص لِلنَّاسِ فَضَيَّعُوهُ ثُمَّ قَالَ- فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ مِنْهُ فَلَمَّا وَضَعَ الْوُضُوءَ إِنْ لَمْ تَجِدُوا الْمَاءَ أَثْبَتَ بَعْضَ الْغَسْلِ مَسْحاً لِأَنَّهُ قَالَ بِوُجُوهِكُمْ ثُمَّ وَصَلَ بِهَا وَ أَيْدِيَكُمْ ثُمَّ قَالَ مِنْهُ أَيْ مِنْ ذَلِكَ التَّيَمُّمِ لِأَنَّهُ عَلِمَ أَنَّ ذَلِكَ أَجْمَعَ لَمْ يَجْرِ عَلَى الْوَجْهِ لِأَنَّهُ يُعَلَّقُ مِنْ ذَلِكَ الصَّعِيدِ بِبَعْضِ الْكَفِّ وَ لَا يَعْلَقُ بِبَعْضِهَا ثُمَّ قَالَ ما يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ وَ الْحَرَجُ الضِّيق


زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر ع سے کہا کہ آپ سر اور پیر کے مسح میں پورے سر اور پیر کا مسح ضروری نہیں سمجھتے بلکہ سر اور پیر کی ایک مقدار کو مسح کے لئے کافی سمجھتے ہیں، کیا آپ بیان کر سکتے ہیں کہ یہ حکم آپ نے کیسے اور کہاں سے بیان فرمایا؟

امام نے تبسّم فرمایا اور فرمانے لگے: "یہ وہ چیز ہے جس کی رسول اللہ ص نے تصریح کی اور کتاب خدا میں نازل ہوا۔ جیسا کہ اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہے "فاغسلو وجوھکم" یعنی اپنے چہروں کو دھو لو، اس سے ہم نے جانا کہ چہرے کو مکمّل دھونا لازمی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے ہاتھ دھونے کو چہرے پر عطف کیا اور فرمایا "وایدیکم الی المرافق" یعنی اپنے ہاتھ کو کہنیوں تک دھو لو (اللہ نے ہاتھ کے دھونے کے لئے الگ فعل کا ذکر نہیں کیا بلکہ چہرے کے فعل یعنی دھونے کا حکم یہاں برقرار رکھا تو ہم نے جانا کہ مکمّل ہاتھ کا کہنیوں تک دھونا لازمی ہے)۔

اس کے بعد اللہ نے کلام کے درمیان فاصلہ دیا اور کہا "وامسحو برؤوسکم" یعنی سر کا مسح کرو۔ برؤوسکم سے ہم نے جانا کہ سر کے کچھ حصّوں کا ہی مسح ہے کیونکہ یہاں حرف "باء" آیا ہے۔ (باء تبعیض کے لئے استعمال ہوتا ہے، اگر پورے سر کے مسح کا حکم ہوتا تو "وامسحو رؤوسکم" کہا جاتا)۔ پھر دونوں پیر کو سر کے حکم سے متّصل کیا جیسے ہاتھوں کو چہرے کے ساتھ وصل کیا تھا اور کہا "وارجلکم الی الکعبین" یعنی مسح کرو پیروں کا ان کے ابھار تک۔ پھر جیسا کہ پیروں کو سر سے وصل کیا تو اس کا مطلب ہوا کہ مسح بھی پیر کے بعض حصّوں کا ہی ہوگا (جیسے سر کے کچھ حصّوں کا ہی مسح تھا)۔ اس کے بعد رسول اللہ ص نے لوگوں کو (اس آیت کی) یہی تفسیر بتائی لیکن لوگوں نے آپ کے فرمان کو ضائع کر دیا۔"

(اصول کافی: ج3 ص30، تفسیر عیاشی ج1 ص299، من لا یحضرہ الفقیہ ج1 ص 103، علل الشرائع ج 1 ص279، تہذیب الاحکام ج1 ص61)


رجال الحدیث:


کافی میں یہ روایت ان اسناد سے نقل ہوئی ہے؛

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ

گویا اس کی دو اسناد ہوئیں؛

1) علی بن ابراھیم ---> ابراھیم بن ہاشم ---> حمّاد بن عیسی ---> 
حریز ---> زرارہ

2) محمد بن اسماعیل ---> فضل بن شاذان ---> حماد بن عیسی ---> حریز ---> زرارہ

ان دونوں اسناد کے تمام روات بالاتفاق ثقہ ہیں۔

من لا یحضرہ الفقیہ میں زرارہ سے نقل ہوئی، شیخ صدوق نے مشیخہ میں اپنا طریق زرارہ تک یوں نقل کیا ہے؛

شیخ صدوق –> ابیہ (علی ابن بابویہ قمّی) –> عبداللہ ابن جعفر حمیری –> محمد بن عیسی بن عبید، و حسن بن ظریف و علی ابن اسماعیل بن عیسی –> حماد بن عیسی –> حریز بن عبداللہ –> زرارہ

اس روایت میں شیخ صدوق کے والد، عبداللہ ابن جعفر حمیری، محمد بن عیسی بن عبید، حماد بن عیسی و حریز بن عبداللہ اور زرادہ ثقہ ہیں۔

شیخ صدوق نے علل الشرائع میں اسی روایت کو اس سند کے ساتھ بھی نقل کیا ہے؛

أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَة

اس سند میں بھی تمام راوی ثقہ ہیں۔

شیخ طوسی نے اس روایت کو کلینی سے نقل کیا اور کلینی سے آگے اس کی سند وہی ہے جو کافی میں تھی۔ اور شیخ طوسی کا اپنا طریق کلینی تک ثقات پر مشتمل ہے۔ تہذیب الاحکام میں اس سند کے ساتھ نقل ہوئی؛

مَا أَخْبَرَنَا بِهِ الشَّيْخُ أَيَّدَهُ اللَّهُ تَعَالَى عَنْ أَبِي الْقَاسِمِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَة

شیخ طوسی کو اس روایت کا اجازہ شیخ مفید نے دیا، ان کو مشہور محدّث ابن قولویہ نے اور انہوں نے کلینی سے نقل کیا۔ یہ سب اجلاّت ثقات ہیں، کلینی سے آگے سند وہی ہے جو اصول کافی میں نقل ہوئی۔ 


درایۃ الحدیث:


جیسا کہ اوپر وارد ہوا کہ شیخ کلینی نے دو اسناد سے اس روایت کو نقل کیا اور دونوں صحیح کے درجے پر ہیں۔ من لا یحضرہ الفقیہ میں شیخ صدوق کا زرارہ تک طریق بھی صحیح ہے۔ علل الشرائع میں بھی اس کے تمام راوی ثقات میں سے ہیں اور روایت صحیح ہے۔ تہذیب الاحکام میں بھی اس کی سند صحمح ٹھہرے گی۔ دیکھا جائے تو یہ روایت کثرت طرق، کثرت نقل اور مشایخ ثلاثہ (کلینی و صدوق و طوسی) کے اعتبار کی وجہ سے وثوق صدوری کے اعلی درجے پر ہے۔

بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مشایخ نے حمّاد بن عیسی یا حریز بن عبداللہ سجستانی کی کتاب سے اٹھایا ہے، جو یقینا ان کے پاس موجود ہوگی۔ اس زمانے میں حدیث کی کتب کو مشایخ کے پاس قرات کیا جاتا تھا یا جس کی کتاب تھی وہ اپنے شاگردوں کو املا کرتا تھا۔


فوائد الحدیث:

اس حدیث سے کئی باتیں واضح ہوتی ہیں؛

1) وضو کا شیعہ طریقہ قرآن سے ثابت ہے

2) سوال پوچھنا یا فتوی کا ماخذ پوچھنا بالکل بھی غلط نہیں بلکہ ذہنی بالیدگی کا ثبوت ہے۔ زرارہ جیسے جلیل القدر اصحاب آئمہ ع سے مختلف احکامات کی علّتیں یا ان کا ماخذ پوچھتے تھے، لیکن کبھی امام نے نہیں ٹوکا کہ تمہارا کام آنکھ بند کر کے عمل کرنا ہے۔

3) ظاہر قرآن حجت ہیں

4) یہ حدیث اجتہاد کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ امام ع گویا بتا رہے ہیں کہ ہمیں کس طرح سے قرآن و سنّت سے استنباط کرنا ہے۔ امام خمینی(رض) آئمہ(ع) کے دور میں اجتہاد کے وجود پر لکھتے ہیں؛

"ان دلائل میں وہ روایات ہیں جو کتاب اللہ سے حکم شرعی کے استنباط کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جیسے زرارہ کی روایت ۔ غور کرو کہ امام کس طرح سے زرارہ کو کتاب اللہ سے استنباط کا طریقہ سکھا رہے ہیں۔"

(الرّسائل: ج2 ص127)

شیخ حرّ عاملی اس روایت کو اجتہاد سکھانے پر واضح دلیل سمجھتے ہیں۔ آپ "الفصول المھمّہ فی اصول الائمہ" میں اصول فقہ کے باب میں اس روایت کو اس عنوان سے لاتے ہیں "ان الباء تاتی للتبعیض کآیۃ الوضوء والتیمم"۔

دکتر ابوالقاسم گرجی اس روایت کو ان روایات میں شمار کرتے ہیں جو صدر اسلام میں اجتہاد اور اصول فقہ کے وجود پر دلالت کرتے ہیں (تحوّل علم اصول، ص19)

ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ یہ روایت زرارہ کے ضعف ایمان اور بے ادبی پر دلالت کرتی ہے، تو اس کا جواب شیخ بہائی نے مشرق الشمسین میں دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ بے ادبی شمار نہیں ہوں گے اور نہ ضعف اعتقاد ہے، بلکہ زرارہ چونکہ اہل سنّت کے ساتھ مناظرے اور مباحثے کرتے تھے اور وہ ہر بات کی دلیل پوچھتے تھے اس لئے زرارہ امام باقر(ع) سے رہنمائی کے طالب ہوئے۔

والسّلام علی من اتبع الھدی

خاکسار: ابوزین الہاشمی

Wednesday, February 12, 2014

اولی الامر کون؟ قرآن میں اہل بیت ع کا نام کیوں نہیں؟


عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبِى بَصِيرٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَطِيعُوا اللّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِى الْأَمْرِ مِنْكُمْ فـَقـَالَ نـَزَلَتْ فـِى عـَلِيِّ بـْنِ أَبـِي طَالِبٍ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ ع فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ فَمَا لَهُ لَمْ يُسَمِّ عَلِيّاً وَ أَهْلَ بَيْتِهِ ع فِى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ قَالَ فَقَالَ قُولُوا لَهُمْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص نَزَلَتْ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَ لَمْ يُسَمِّ اللَّهُ لَهُمْ ثَلَاثاً وَ لَا أَرْبَعاً حَتَّى كـَانَ رَسـُولُ اللَّهِ ص هُوَ الَّذِى فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَ نَزَلَتْ عَلَيْهِ الزَّكَاةُ وَ لَمْ يُسَمِّ لَهُمْ مِنْ كُلِّ أَرْبـَعـِيـنَ دِرْهَماً دِرْهَمٌ حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص هُوَ الَّذِى فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَ نَزَلَ الْحَجُّ فَلَمْ يـَقـُلْ لَهـُمْ طـُوفـُوا أُسـْبُوعاً حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص هُوَ الَّذِى فَسَّرَ ذَلِكَ لَهُمْ وَ نَزَلَتْ أَطـِيـعـُوا اللّهَ وَ أَطـِيـعـُوا الرَّسـُولَ وَ أُولِى الْأَمـْرِ مـِنـْكـُمْ وَ نـَزَلَتْ فـِى عـَلِيٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحـُسـَيـْنِ فـَقـَالَ رَسـُولُ اللَّهِ ص فـِى عـَلِيٍّ مـَنْ كـُنـْتُ مـَوْلَاهُ فـَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ وَ قَالَ ص ‍ أُوصـِيـكـُمْ بـِكِتَابِ اللَّهِ وَ أَهْلِ بَيْتِى فَإِنِّى سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْ لَا يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا حَتَّى يُورِدَهُمَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَأَعْطَانِي ذَلِكَ وَ قَالَ لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَهُمْ أَعْلَمُ مِنْكُمْ وَ قَالَ إِنَّهُمْ لَنْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ بَابِ هُدًى وَ لَنْ يُدْخِلُوكُمْ فِى بَابِ ضَلَالَةٍ فَلَوْ سَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ ص فـَلَمْ يـُبـَيِّنْ مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ لَادَّعَاهَا آلُ فُلَانٍ وَ آلُ فُلَانٍ وَ لَكِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْزَلَهُ فِى كِتَابِهِ تَصْدِيقاً لِنَبِيِّهِ ص إِنَّما يُرِيدُ اللّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تـَطـْهـِيـراً فـَكـَانَ عَلِيٌّ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ فَاطِمَةُ ع فَأَدْخَلَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ص تَحْتَ الْكِسَاءِ فِى بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ أَهْلًا وَ ثَقَلًا وَ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِى وَ ثـَقـَلِى فـَقـَالَتْ أُمُّ سـَلَمـَةَ أَ لَسـْتُ مـِنْ أَهْلِكَ فَقَالَ إِنَّكِ إِلَى خَيْرٍ وَ لَكِنَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِى وَ 


ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق(ع) سے اللہ کے کلام "اطیعو اللہ و اطیعو الرسول واولی الامر منکم" (نساء 59) کا پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ یہ آیت علی ابن ابیطالب، حسن اور حسین(علیھم السلام) کے لئے نازل ہوئی ہے۔

میں نے ان سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ علی(ع) اور اہل بیت(ع) کا نام کتاب اللہ عزّوجل میں (صریح) درج کیوں نہیں ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا: ان سے کہو کہ اللہ نے نماز کی آیت رسول اللہ(ص) پر نازل کی لیکن تین رکعتی اور چار رکعتی نمازوں کے نام اس میں نہیں بتائے گئے یہاں تک کہ خود رسول (ص) نے لوگوں کو بیان کیا۔ اور (اسی طرح) آیت زکات ان پر نازل ہوئی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ہر 40 درھم پر ایک درھم زکات دینی ہے، یہاں تک کہ خود رسول(ص) نے بیان فرمایا۔ اور (اسی طرح) حج کا حکم آیا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ 7 طواف کرنے ہیں، یہاں تک کی رسول(ص) نے وضاحت کی۔

اور جب "اطیعو اللہ و اطیعو الرّسول و اولی الامر منکم" نازل ہوئی تو یہ علی(ع) و حسن و حسین(ع) کے لئے نازل ہوئی۔ پس رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کے بارے میں فرمایا "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" (جس جس کا میں مولا، اس اس کا یہ علی مولا)۔ اور نیز فرمایا: میں تم سے کتاب اللہ (قرآن) اور اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں وصیّت کرتا ہوں کیونکہ میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ ان دونوں کو ہرگز باھم جدا نہ ہونے دینا جب تک یہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر نہ پہنچ جائیں، پس اللہ نے میری خواہش ہوری کی۔ اور نیز فرمایا: تم لوگ ان کو کچھ نہ سکھانا کیونکہ وہ تم سے زیادہ دانا ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا: یہ تمہیں ہدایت سے باہر ہرگز نہ جانے دیں گے اور تمہیں ضلالت و گمراہی کے دروازے میں کبھی داخل نہیں کریں گے۔

اور اگر رسول اللہ(ص) خاموشی فرماتے اور اپنی اہل بیت(ع) کے بارے میں بیان نہ فرماتے تو فلاں اور فلاں کی آل اس امر کا دعوی کرتی۔ لیکن اللہ نے اپنے نبی(ص) کی تصدیق کے لئے اپنی کتاب میں نازل فرمایا: "انّما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل بیت ویطھّرکم تطہیرا"۔ آپ(ص) نے امّ سلمہ(س) کے گھر میں اپنی عباء کے نیچے علی، فاطمہ، حسن و حسین(علیھم السّلام) کو جمع کیا اور فرمایا: اے اللہ ہر نبی کے اھل و ثقل ہوتے ہیں، میرے اھل اور ثقل یہ ہیں۔ امّ سلمہ(ر) نے عرض کیا کہ کیا میں آپ کے اھل سے نہیں؟ آپ(ص) نے فرمایا کہ بے شک تم خیر پر ہو لیکن میرے اھل و ثقل یہ ہیں۔

اصول كافى جلد 2 صفحه 40 رواية 1 

یہ حدیث اس سلسلۂ سند کے ساتھ "صحیح" کے درجے پر ہے؛

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ وَ الْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ الْحُرِّ وَ عِمْرَانَ بْنِ عَلِيٍّ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ
فوائد؛

اس حدیث سے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں؛

1) اطیعو اللہ واطیعو الرّسول واولی الامر والی آیت میں اولی الامر کے مصداق صرف آئمہ اھل بیت(ع) ہیں۔ 
کچھ گمراہ کرنے والے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر امامت منصوص ہوتی تو امام علی(ع) کا نام قرآن میں کیوں نہیں۔ امام جعفر صادق(ع) کے اس استدلال نے ان لوگوں کی بولتی بند کر دی ہے، جس طرح قرآن میں نماز کا حکم ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کس نماز کی کتنی رکعتیں ہیں اور کیسے پڑھنی ہیں، یہ رسول(ص) نے بتایا۔ اسی طرح زکات کا حکم ہے، لیکن زکات کا نصاب کیا ہے اور اس کے احکام کیا ہیں یہ رسول(ص) نے بتائے۔ اسی طرح قرآن میں اولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے، لیکن یہ اولی الامر کون ہیں یہ رسول(ص) ہی بتائیں گے اور رسول(ص) نے غدیر خم سمیت کئی مقامات پر اس بات کا برملا اظہار فرمایا کہ یہ ولایت صرف علی(ع) کی ہے۔ 

2) قرآن اور اہل بیت(ع) اطہار قدم بقدم ساتھ ہیں۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے قرآن کی مخالفت کی وہ کبھی اہل بیت(ع) میں شامل نہیں ہو سکتے۔ امّہات المؤمنین میں سے ایک امّ المؤمنین نے قرآن کی مخالفت کی، قرآن نے ان کو بعد از رسول(ص) گھروں میں رہنے کا حکم دیا مگر آپ نہ صرف گھر سے باہر نکلیں بلکہ لشکر لے کر باقاعدہ امام وقت و برحق کے خلاف بغاوت کی۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ 

3) امّہات ہرگز اھل بیت(ع) میں شامل نہیں۔ 

علاوہ ازیں حدیث کساء میں امّ سلمہ(ع) کا عبا یا ردا میں شامل ہونے کی کوشش اور رسول(ص) کا اس بات سے منع کرنا کہ تم اھل میں شامل نہیں ہو، یہ بات پوائنٹ نمبر 3 کا واضح ثبوت ہے۔ 

حدیث کساء کا واقعہ امّ سلمہ(س) کے گھر پر پیش آیا، چنانچہ وہ معروف حدیث کساء جس کی سند مخدوش ہے وہ غلط ثابت ہوتی ہے۔ صحیح احادیث کی روشنی میں یہ واقعہ امّ سلم کے گھر پر پیش آیا۔ 

آیت تطہیر کے مصداق صرف علی و حسن و حسین و فاطمہ(علیھم السلام) ہیں اور امّہات ان میں شامل نہیں۔

الحمد للہ الّذی اوّلا وآخرا و ظاھرا و باطنا

خاکسار: ابو زین الہاشمی

Tuesday, February 11, 2014

قریبی شادیوں میں کراہت


سوال: میڈیکل سائنس میں کچھ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ ماں یا باپ کی طرف سے جو رشتے ہوتے ہیں(کزنز) وغیرہ، اگر انکی آپس میں شادیاں ہوں تو بیماریاں بڑھنے یا نئ بیماریاں پیدا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ کیا تعلیمات آئمہؑ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے؟ یا آئمہؑ نے کبھی اس بات سے منع کیا ہے کہ ان رشتوں میں نسل در نسل شادیوں سے پرہیز کیا جائے؟

جواب: امام صادق(ع) فرماتے ہیں: ولا تنكحوا القرابۃ القريبہ فان الولد یخلق ضاوی یعنی "نزدیکی رشتہ داروں سے 
شادی مت کرو کیونکہ اس سے ضعیف اولاد پیدا ہوتی ہے"۔ 

یہ روایت شیخ طوسی نے نہایۃ الاحکام میں، علامہ حلی نے تذکرۃ الفقہاء میں، شہید ثانی نے مسالک الافہام میں، اور شیخ یوسف بحرانی نے حدائق الناظرہ میں نقل کی ہے۔ آيت اللہ مکارم شیرازی نے بھی اپنی ایک استفتاء میں اس روایت سے استدلال کیا ہے اور نہایت قریبی شادیوں میں کراہت کے قائل ہوئے ہیں۔

لہذا نسل در نسل قریبی رشتہ داروں میں شادیاں بہت سے جینیاتی مسائل کو جنم دیتی ہیں جس کی طرف امام ع نے اشارہ فرمایا اور میڈیکل سائنس اس کی تائید کرتی ہے۔ البتہ اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ کزنز میں شادیاں مکروہ ہوں گی، بلکہ یہ کراہت اسی صورت میں ہوگی جب نسل در نسل ایسی شادیاں وقوع پذیر ہوں۔

دیگر اقوام و قبائل میں شادیوں سےرشتہ داریاں بھی بڑھتی ہیں اور اولاد قوی اور ذہین پیدا ہوتی ہے۔ 

واللہ اعلم

الاحقر: ابوزین الہاشمی

کعبہ کی افضلیت


عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أُذَيْنَةَ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: كُنْتُ قَاعِداً إِلَى جَنْبِ أَبِي جَعْفَرٍ ع- وَ هُوَ مُحْتَبٍ مُسْتَقْبِلُ الْكَعْبَةِ فَقَالَ أَمَا إِنَّ النَّظَرَ إِلَيْهَا عِبَادَةٌ فَجَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَجِيلَةَ يُقَالُ لَهُ عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ فَقَالَ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع إِنَّ كَعْبَ الْأَحْبَارِ كَانَ يَقُولُ إِنَّ الْكَعْبَةَ تَسْجُدُ لِبَيْتِ الْمَقْدِسِ فِي كُلِّ غَدَاةٍ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع فَمَا تَقُولُ فِيمَا قَالَ كَعْبٌ فَقَالَ صَدَقَ الْقَوْلُ مَا قَالَ كَعْبٌ فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع كَذَبْتَ وَ كَذَبَ كَعْبُ الْأَحْبَارِ مَعَكَ وَ غَضِبَ قَالَ زُرَارَةُ مَا رَأَيْتُهُ اسْتَقْبَلَ أَحَداً بِقَوْلِ كَذَبْتَ غَيْرَهُ ثُمَّ قَالَ مَا خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بُقْعَةً فِي الْأَرْضِ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْهَا ثُمَّ أَوْمَأَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْكَعْبَةِ وَ لَا أَكْرَمَ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْهَا لَهَا حَرَّمَ اللَّهُ الْأَشْهُرَ الْحُرُمَ فِي كِتَابِهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَةٌ لِلْحَجِّ- شَوَّالٌ وَ ذُو الْقَعْدَةِ وَ ذُو الْحِجَّةِ وَ شَهْرٌ مُفْرَدٌ لِلْعُمْرَةِ وَ هُوَ رَجَبٌ.

زرارہ کہتے ہیں کہ میں امام باقر ع کے پاس بیٹھا تھا اور آپ(ع) اپنے لباس کو لپیٹ کر قبلہ رخ بیٹھے تھے۔ آپ(ع) نے فرمایا:
"کعبہ کو دیکھنا بھی عبادت ہے"۔

اس پر ایک شخص جس کا نام عاصم بن عمر تھا، نے کہا: "کعب الاحبار کہتا ہے کہ کعبہ ہر روز صبح بیت المقدّس کو سجدہ کرتا ہے۔"

امام باقر(ع) نے اس شخص سے کہا: "تمہاری رائے کعب الاحبار کی اس بات کے بارے میں کیا ہے؟"

اس شخص نے جواب دیا کہ جو کچھ کعب نے کہا ہے، درست کہا ہے۔ اس پر آپ(ع) نے غضبناک ہو کر کہا: "تم اور کعب دونوں نے جھوٹ کہا ہے۔" اس کے بعد کعبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

"اللہ عزّوجل نے کعبہ سے بہتر کوئی بھی مکان اس روئے زمین پر خلق نہیں کیا۔"

زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا کہ امام کسی سے روبرو ہوئے ہوں اور اس کو جھوٹا کہا ہو۔

(اصول کافی، ج4 ص239، باب فضل النظر الی الکعبہ)


اس روایت کی دو اسناد ہوئیں؛

علی ابن ابراھیم --> ابراھیم بن ہاشم --> ابن ابی عمیر --> عمر بن اذینہ --> زرارہ بن اعین 

محمد بن اسماعیل --> فضل بن شاذان --> ابن ابی عمیر --> عمر بن اذینہ --> زرارہ بن اعین 

یہ حدیث دو اسناد سے مروی ہے اور دونوں اسناد کے راوی بالاتفاق ثقہ ہیں۔

خاکسار: ابوزین الہاشمی

جنّات میں انبیاء

سوال) کیا جنّات میں بھی انبیاء آئے ہیں؟


جواب) قرآن کی یہ آیت واضح اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں اور جنّات دونوں میں انبیاء بھیجے، قیامت کے دن اللہ جنات اور انسانوں سے مخاطب ہو کر کہے گا؛

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَـذَا قَالُواْ شَهِدْنَا عَلَى أَنفُسِنَا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُواْ كَافِرِينَ

اے گروہ جن و انس ! کیا تمہارے پاس خود تم میں سے رسول نہیں آئے تھے جو میری آیات تمہیں سناتے تھے اور آج کے دن کے وقوع کے بارے میں تمہیں متنبہ کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں اور دنیاوی زندگی نے انہیں دھوکہ دے رکھا تھا اور (آج) وہ اپنے خلاف گواہی دے رہے ہیں کہ وہ کافر تھے 

سورہ انعام: 130

اس بات کی تائید احادیث میں بھی ملتی ہے، جیسے علل الشرائع کی ایک روایت ہے جس کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار کی جلد 60 ص78 میں نقل کیا ہے؛

سَأَلَهُ هَلْ بَعَثَ اللَّهُ نَبِيّاً إِلَى الْجِنِّ فَقَالَ نَعَمْ بَعَثَ إِلَيْهِمْ نَبِيّاً يُقَالُ لَهُ يُوسُفُ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ فَقَتَلُوه

مولا علی(ع) سے پوچھا گیا کہ کیا اللہ تعالی نے جنات کی طرف نبی بھیجا، تو آپ ع نے فرمایا: "ہاں ان کی طرف نبی بھیجا گیا تھا جس کا نام یوسف تھا، جب اس نبی نے ان کو اللہ کی طرف دعوت دی تو انہوں نے اس کو قتل کر دیا۔"


البتہ ان باتوں کا ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ جنات کے انبیاء الگ ہوتے ہیں اور انسانوں کے الگ ہوتے ہیں، اور جنّات کبھی بھی انسانی انبیاء کے مطیع نہیں رہے ہوں گے۔ بلکہ بعض انبیاء جن و انس سب کے لئے تھے اور ان کے لئے بطور خاص جنات کو مطیع کیا گیا جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام۔۔ جنّات میں چند ہی انبیاء آئے ہوں گے کیونکہ جنّات کی عمر انسانوں سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اور مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں ممکن ہے کہ ایک ہی نبی آیا ہو، لیکن بہرحال جنات میں انبیاء کا مبعوث ہونا ناممکن نہیں۔

اس سلسلے میں تھوڑی مزید وضاحت کر دیں کہ بعض انبیاء فقط ایک قریہ کے لئے مبعوث ہوئے، کچھ انبیاء فقط ایک قوم یا قبیلے کے لئے مبعوث ہوئے۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ (سورہ ابراھیم: 4)

ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی قوم کی زبان میں تاکہ وہ انہیں وضاحت سے بات سمجھا سکے۔

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولٌ فَإِذَا جَاء رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ (سورہ یونس: 47)

اور ہر امت کیلیے ایک رسول(بھیجا گیا) ہے،پھرجب ان کا رسول آتا ہے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جاتا ہے اور ان پر کوئی ظلم روا نہیں رکھا جاتا۔

پس ایسا ناممکن نہیں کہ اللہ جنّات کے لئے جناّت میں سے ہی کسی کو مبعوث کرے۔ انبیاء کی اکثریت کو محدود علاقوں یا قوم کے لئے مبعوث کیا گیا۔ تبھی ہم کہتے ہیں کہ اللہ نے یقینا چین، ہندوستان، افریقہ اور دنیا کے تمام علاقوں میں انبیاء بھیجے ہوں گے، یہاں تک کہ امریکہ کے "ریڈ انڈینز" میں بھی انبیاء آئے ہوں گے۔

لیکن رسول اللہ حضرت محمد مصطفی(ص) کی نبوّت و رسالت پورے عالم کے لئے تھی، اور آپ جنّات کے لئے بھی آخری نبی ہیں۔

وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ (سورہ احقاف: 29)

اور (یاد کیجیے) جب ہم نے جنات کے ایک گروہ کو آپ کی طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن سنیں، پس جب وہ رسول کے پاس حاضر ہو گئے تو (آپس میں) کہنے لگے: خاموش ہو جاؤ! جب تلاوت ختم ہو گئی تو وہ تنبیہ (ہدایت) کرنے اپنی قوم کی طرف واپس لوٹ گئے۔

جنّات دیگر اولو العزم پیغمبروں پر بھی ایمان رکھتے تھے، جیسا کہ واضح ہے؛

قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ (سورہ احقاف: 30)

انہوں (جنّات) نے کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے، وہ حق اور راہ راست کی طرف ہدایت کرتی ہے۔

والسّلام

العبد: ابو زین الہاشمی

کیا گناہوں کی سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے؟

سوال) کیا گناہوں کی سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ بیماریوں سے گناہ دھلتے ہیں، اس سے کیا مراد ہے؟


جواب) یہ دنیا جزا و سزا کی جگہ نہیں بلکہ دارالاعمال ہے۔ یہ دنیا دارالامتحان بھی ہے جس میں نیک اور بد، سعید و بدبخت آپس میں جدا ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں آپ اگلے جہاں کے لئے کھیتی کرتے ہیں (الدّنیا مزرعۃ الآخرہ)۔۔۔ آخرت میں اس کا پھل یا اس کی سزا ملتی ہے۔ کوئی گناہ نہیں ہے جس کی سزا اس دنیا میں ملتی ہے، حکیم الامّت امام خمینی نے اس بات کی سختی سے مذمّت کی ہے۔

بیماری سے گناہ جھڑنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی انسانوں کو اس دنیا میں آزماتا ہے، سخت بیماری بھی آزمائش ہوتی ہے، اگر وہ شخص مومن ہوگا تو اللہ کے مزید قریب ہوگا، اللہ سے توبہ کرے گا اور عبادت کی طرف راغب ہوگا، بیماری میں گناہ سے متنفر ہوگا۔ بیماری کی صورت میں وہ توبہ کرے گا تو یقینا اس کے گناہ جھڑیں گے، عبادت کی طرف راغب ہوگا اور توبہ کرے گا تو یقینا درجات بلند ہوں گے۔

البتہ اللہ تعالی اپنے خاص بندوں کو اس دنیا میں آزماتا ہے، اور ان پر مختلف بلائیں آتی ہیں تاکہ ان کے درجات بلند ہوں۔ دنیا میں غرق ہونا اور اس کی لذّات میں کھو جانا انسان کے اندر دنیا کی محبّت پیدا کر دیتی ہے اور وہ اللہ کی اطاعت اور دار آخرت کو بھول جاتا ہے۔ جبکہ اس دنیا میں مشکلات، آفات اور سختیاں انسان کو دنیا سے متنفّر کر دیتی ہے اور اگر وہ اللہ سے تھوڑی بہت بھی قربت رکھتا ہو وہ آخرت کی فکر کرنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے خاص بندے مشکلات میں رہتے ہیں اور مختلف آفات و بلیّات ان پر پڑتی رہتی ہیں۔ دنیا سے دوری یا مشکلات بھی اللہ کی طرف سے رحمت ہے، اگر ہم سمجھ سکیں۔

امام باقر(ع) فرماتے ہیں: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَيَتَعَاهَدُ الْمُؤْمِنَ بِالْبَلَاءِ كَمَا يَتَعَاهَدُ الرَّجُلُ أَهْلَهُ بِالْهَدِيَّةِ مِنَ الْغَيْبَةِ وَ يَحْمِيهِ الدُّنْيَا كَمَا يَحْمِي الطَّبِيبُ الْمَرِيض۔۔۔۔ یعنی اللہ عزّوجل مرد مؤمن کو بلاؤں کے ذریعے دوست رکھتا ہے جیسے کوئی شخص اپنی بیوی کے لئے سفر سے تحفہ لاتا ہے۔ اور اس کو دنیا سے بچنے کے لئے اسباب مہیّا کرتا ہے جیسے کوئی طبیب کسی مریض کو پرہیز بتاتا ہے۔ (اصول کافی: ج2 ص255)

امام صادق(ع) فرماتے ہیں: إِنَّ عَظِيمَ الْأَجْرِ لَمَعَ عَظِيمِ الْبَلَاءِ وَ مَا أَحَبَّ اللَّهُ قَوْماً إِلَّا ابْتَلَاهُم۔۔۔ بے شک اجر عظیم بڑی بلاؤں اور سختیوں کے ساتھ ہے، اور جس کو اللہ دوست رکھتا ہے اس کو اللہ سختیوں اور بلاؤں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (اصول کافی: ج2 ص252)

چنانچہ کسی مومن کی سختیاں اس پر عذاب نہیں، نہ کسی گناہ کا نتیجہ ہے، بلکہ یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالی اس کو دوست رکھتا ہے اور آزمائش کے ذریعے اس کے اجر میں اضافہ کرتا ہے۔ چنانچہ دنیا میں آزمائش ممکن ہے لیکن کسی قسم کا عقاب یا عذاب نہیں ہے۔

دنیا دار عمل ہے، اس دنیا میں عمل ہے اور اس کا پھل آخرت میں ہے۔ یہ اسلام کا فلسفۂ آخرت ہے۔ البتہ کچھ جرائم ہوتے ہیں جن کے کچھ نتائج دنیا میں ہی ہوتے ہیں، جن کو ہم "کیفر" کہتے ہیں۔۔۔ مثلا کہتے ہیں کہ فلاں کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ مثلا شرابخواری گناہ ہے، اس کا مرتکب توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن سزا پائے گا لیکن کثرت سے شرابخواری کے نتائج اس کو اس دنیا میں بھگتنے ہوں گے کیونکہ شراب جسم اور روح کو تباہ کر دیتا ہے، یہ اعصاب کو خراب کر دیتا ہے اور جگر و دیگر اعضاء کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ اگر وہ توبہ کے باوجود ان عوارض میں مبتلا ہو جائے تو اس کو کہتے ہیں کہ وہ شخص کیفر کردار کو پہنچا، اس نے اس دنیا میں بھی اس گناہ کے آثار دیکھ لئے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی اصل سزا میں کسی قسم کی کوئی تخفیف ہوئی۔ وہ آخرت میں اس کی مکمّل سزا پائے گا اگر صدق دل سے توبہ نہ کرے۔

یا مثلا جنسی انحرافات کا نتیجہ ایڈز یا دیگر بیماریوں کی شکل میں انسان بھگتتا ہے، اور بعض معاشروں میں بدنامی کی صورت میں۔

ایک اور مثال دیتا ہوں کہ کوئی شخص زہر کھا رہا ہو، ہم اس کو روکیں کہ زہر کھانے سے مر جاؤ گے۔ لیکن وہ پھر بھی کھائے جس کی نتیجے میں وہ مر جائے۔۔ اس پر کوئی شخص کہے کہ اس کا گناہ کچھ سیکنڈوں کا تھا کیونکہ زہر کھانے میں کچھ سیکنڈ ہی لگیں گے لیکن اس کو اتنی بڑی سزا ملی کہ وہ مر گیا۔۔۔ یہ اعتراض باطل ہوگا کیونکہ زہر کھانے کی صورت میں مرنا معلول ہے۔ زہر کھانے کا نتیجہ موت ہے، اس کو ہم خودکشی کی سزا نہیں کہہ سکتے۔ اس کے اس عمل کا نتیجہ مرنا تھا، سو وہ مر گیا۔۔۔ لیکن اس کو خودکشی کی سزا قیامت کے دن ملے گا۔

ایک اور مثال لیں! کوئی شخص قتل پر قتل کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر *Chain killer* ہے۔ قتل کرنا گناہ ہے، اور وہ قتل کرتا جاتا ہے۔ اس کے اس عمل کا نتیجہ اس دنیا میں کیا ہوگا؟ وہ پکڑا جائے گا اور پولیس اس کو پھانسی دے گی یا عمر قید کی سزا ۔۔۔۔ اس کو مکافات عمل کہتے ہیں یا ہم یوں کہیں گے کہ وہ کیفر کردار تک پہنچ گیا۔ اس نے اپنے عمل کا نتیجہ دیکھ لیا، لیکن یہ اس کے گناہوں کی سزا نہیں ہے۔ اس نے کئی قتل کئے لیکن اس کو سزا ایک قتل کی صورت میں ملی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، یہ دنیا دار عمل ہے۔ ابھی اس نے اعمال انجام دیئے ہیں، اس کی سزا اس کو آخرت میں ملے گی لیکن ان اعمال کا جو نتیجہ مرتّب ہونا تھا وہ بھی اس نے دیکھ لیا۔

اب اگر فرض کریں کہ وہ قاتل نہیں پکڑا جاتا، یا وہ اتنا عقلمند تھا کہ اپنے جرائم کا نشان تک نہیں چھوڑا۔ اب کیا کہیں گے؟؟؟ کیا یہی خدا کا عدل ہے کہ ایک شخص پکڑا جاتا ہے اور کیفر کردار کو پہنچتا ہے اور ایک شخص دندناتا پھرتا ہے؟ ہرگز نہیں، اللہ کا اصل عدل تو قیامت کے دن ہوگا۔۔۔ باقی کوئی اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھ لیتا ہے اور کوئی نہیں دیکھتا، اس کا اس کی سزا سے تعلق نہیں ہے

مثلا ایک آمر و جابر بادشاہ ہے، کتنے ظالم حکمران ایسے ہیں جنہوں نے اپنے عمل کا نتیجہ اس دنیا میں دیکھا۔ عوام ان کے خلاف کھڑی ہوئی یا ان کو بھی اس عمل کی سزا ملی۔ جیسے صدّام حسین! اس شخص نے ہزاروں لوگوں کو قتل کیا اور لاکھوں پر اس نے ظلم کے پہاڑ توڑے۔ آخر خود رسواکن انداز میں پکڑا گیا، اور کیفر کردار تک پہنچا۔ لیکن اس کو ابھی اپنے اعمال کی سزا نہیں ملی۔ یہ تو اس نے اپنے عمل کا نتیجہ دیکھا ہے۔ کسی کو مارو گے یا ظلم کرو گے تو آپ کو بھی جواب ملے گا۔

لیکن اس کے برعکس کتنے ظالم حکمران ایسے ہیں جو ساری زندگی ظلم کرتے رہے اور بغیر کوئی نتیجہ دیکھے اس دنیا سے چلے گئے۔ 

مندرجہ ذیل قرآنی آیات میں اسی طرف اشارہ ہے؛

لَّهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَقُّ ۖ وَمَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِن وَاقٍ 

(سُوۡرَةُ الرّعد:٣٤)

ان کے لئے زندگانی دنیا میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو اور زیادہ سخت ہے اور پھر اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہے

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ 

(سُوۡرَةُ النُّور:١٩)

جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ صاحبانِ ایمان میں بدکاری کا چرچا پھیل جائے ان کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اللہ سب کچھ جانتا ہے صرف تم نہیں جانتے ہو

دنیا میں دردناک عذاب سے مراد بدکاری کی صورت میں سخت سزائیں ہیں جو یقینا انسان کی برداشت سے زیادہ ہیں۔

والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ

العبد: ابوزین الہاشمی