Thursday, February 13, 2014

وضو میں پیر کا مسح کیوں؟ اور پورے پیر کا مسح کیوں نہیں؟

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع أَ لَا تُخْبِرُنِي مِنْ أَيْنَ عَلِمْتَ وَ قُلْتَ إِنَّ الْمَسْحَ بِبَعْضِ الرَّأْسِ وَ بَعْضِ الرِّجْلَيْنِ فَضَحِكَ ثُمَّ قَالَ يَا زُرَارَةُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ نَزَلَ بِهِ الْكِتَابُ مِنَ اللَّهِ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ- فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ فَعَرَفْنَا أَنَّ الْوَجْهَ كُلَّهُ يَنْبَغِي أَنْ يُغْسَلَ ثُمَّ قَالَ- وَ أَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرافِقِ ثُمَّ فَصَّلَ بَيْنَ الْكَلَامِ فَقَالَ وَ امْسَحُوا بِرُؤُسِكُمْ فَعَرَفْنَا حِينَ قَالَ- بِرُؤُسِكُمْ أَنَّ الْمَسْحَ بِبَعْضِ الرَّأْسِ لِمَكَانِ الْبَاءِ ثُمَّ وَصَلَ الرِّجْلَيْنِ بِالرَّأْسِ كَمَا وَصَلَ الْيَدَيْنِ بِالْوَجْهِ فَقَالَ وَ أَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ فَعَرَفْنَا حِينَ وَصَلَهَا بِالرَّأْسِ أَنَّ الْمَسْحَ عَلَى بَعْضِهَا ثُمَّ فَسَّرَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ ص لِلنَّاسِ فَضَيَّعُوهُ ثُمَّ قَالَ- فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ مِنْهُ فَلَمَّا وَضَعَ الْوُضُوءَ إِنْ لَمْ تَجِدُوا الْمَاءَ أَثْبَتَ بَعْضَ الْغَسْلِ مَسْحاً لِأَنَّهُ قَالَ بِوُجُوهِكُمْ ثُمَّ وَصَلَ بِهَا وَ أَيْدِيَكُمْ ثُمَّ قَالَ مِنْهُ أَيْ مِنْ ذَلِكَ التَّيَمُّمِ لِأَنَّهُ عَلِمَ أَنَّ ذَلِكَ أَجْمَعَ لَمْ يَجْرِ عَلَى الْوَجْهِ لِأَنَّهُ يُعَلَّقُ مِنْ ذَلِكَ الصَّعِيدِ بِبَعْضِ الْكَفِّ وَ لَا يَعْلَقُ بِبَعْضِهَا ثُمَّ قَالَ ما يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ وَ الْحَرَجُ الضِّيق


زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر ع سے کہا کہ آپ سر اور پیر کے مسح میں پورے سر اور پیر کا مسح ضروری نہیں سمجھتے بلکہ سر اور پیر کی ایک مقدار کو مسح کے لئے کافی سمجھتے ہیں، کیا آپ بیان کر سکتے ہیں کہ یہ حکم آپ نے کیسے اور کہاں سے بیان فرمایا؟

امام نے تبسّم فرمایا اور فرمانے لگے: "یہ وہ چیز ہے جس کی رسول اللہ ص نے تصریح کی اور کتاب خدا میں نازل ہوا۔ جیسا کہ اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہے "فاغسلو وجوھکم" یعنی اپنے چہروں کو دھو لو، اس سے ہم نے جانا کہ چہرے کو مکمّل دھونا لازمی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے ہاتھ دھونے کو چہرے پر عطف کیا اور فرمایا "وایدیکم الی المرافق" یعنی اپنے ہاتھ کو کہنیوں تک دھو لو (اللہ نے ہاتھ کے دھونے کے لئے الگ فعل کا ذکر نہیں کیا بلکہ چہرے کے فعل یعنی دھونے کا حکم یہاں برقرار رکھا تو ہم نے جانا کہ مکمّل ہاتھ کا کہنیوں تک دھونا لازمی ہے)۔

اس کے بعد اللہ نے کلام کے درمیان فاصلہ دیا اور کہا "وامسحو برؤوسکم" یعنی سر کا مسح کرو۔ برؤوسکم سے ہم نے جانا کہ سر کے کچھ حصّوں کا ہی مسح ہے کیونکہ یہاں حرف "باء" آیا ہے۔ (باء تبعیض کے لئے استعمال ہوتا ہے، اگر پورے سر کے مسح کا حکم ہوتا تو "وامسحو رؤوسکم" کہا جاتا)۔ پھر دونوں پیر کو سر کے حکم سے متّصل کیا جیسے ہاتھوں کو چہرے کے ساتھ وصل کیا تھا اور کہا "وارجلکم الی الکعبین" یعنی مسح کرو پیروں کا ان کے ابھار تک۔ پھر جیسا کہ پیروں کو سر سے وصل کیا تو اس کا مطلب ہوا کہ مسح بھی پیر کے بعض حصّوں کا ہی ہوگا (جیسے سر کے کچھ حصّوں کا ہی مسح تھا)۔ اس کے بعد رسول اللہ ص نے لوگوں کو (اس آیت کی) یہی تفسیر بتائی لیکن لوگوں نے آپ کے فرمان کو ضائع کر دیا۔"

(اصول کافی: ج3 ص30، تفسیر عیاشی ج1 ص299، من لا یحضرہ الفقیہ ج1 ص 103، علل الشرائع ج 1 ص279، تہذیب الاحکام ج1 ص61)


رجال الحدیث:


کافی میں یہ روایت ان اسناد سے نقل ہوئی ہے؛

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ

گویا اس کی دو اسناد ہوئیں؛

1) علی بن ابراھیم ---> ابراھیم بن ہاشم ---> حمّاد بن عیسی ---> 
حریز ---> زرارہ

2) محمد بن اسماعیل ---> فضل بن شاذان ---> حماد بن عیسی ---> حریز ---> زرارہ

ان دونوں اسناد کے تمام روات بالاتفاق ثقہ ہیں۔

من لا یحضرہ الفقیہ میں زرارہ سے نقل ہوئی، شیخ صدوق نے مشیخہ میں اپنا طریق زرارہ تک یوں نقل کیا ہے؛

شیخ صدوق –> ابیہ (علی ابن بابویہ قمّی) –> عبداللہ ابن جعفر حمیری –> محمد بن عیسی بن عبید، و حسن بن ظریف و علی ابن اسماعیل بن عیسی –> حماد بن عیسی –> حریز بن عبداللہ –> زرارہ

اس روایت میں شیخ صدوق کے والد، عبداللہ ابن جعفر حمیری، محمد بن عیسی بن عبید، حماد بن عیسی و حریز بن عبداللہ اور زرادہ ثقہ ہیں۔

شیخ صدوق نے علل الشرائع میں اسی روایت کو اس سند کے ساتھ بھی نقل کیا ہے؛

أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَة

اس سند میں بھی تمام راوی ثقہ ہیں۔

شیخ طوسی نے اس روایت کو کلینی سے نقل کیا اور کلینی سے آگے اس کی سند وہی ہے جو کافی میں تھی۔ اور شیخ طوسی کا اپنا طریق کلینی تک ثقات پر مشتمل ہے۔ تہذیب الاحکام میں اس سند کے ساتھ نقل ہوئی؛

مَا أَخْبَرَنَا بِهِ الشَّيْخُ أَيَّدَهُ اللَّهُ تَعَالَى عَنْ أَبِي الْقَاسِمِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ جَمِيعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَة

شیخ طوسی کو اس روایت کا اجازہ شیخ مفید نے دیا، ان کو مشہور محدّث ابن قولویہ نے اور انہوں نے کلینی سے نقل کیا۔ یہ سب اجلاّت ثقات ہیں، کلینی سے آگے سند وہی ہے جو اصول کافی میں نقل ہوئی۔ 


درایۃ الحدیث:


جیسا کہ اوپر وارد ہوا کہ شیخ کلینی نے دو اسناد سے اس روایت کو نقل کیا اور دونوں صحیح کے درجے پر ہیں۔ من لا یحضرہ الفقیہ میں شیخ صدوق کا زرارہ تک طریق بھی صحیح ہے۔ علل الشرائع میں بھی اس کے تمام راوی ثقات میں سے ہیں اور روایت صحیح ہے۔ تہذیب الاحکام میں بھی اس کی سند صحمح ٹھہرے گی۔ دیکھا جائے تو یہ روایت کثرت طرق، کثرت نقل اور مشایخ ثلاثہ (کلینی و صدوق و طوسی) کے اعتبار کی وجہ سے وثوق صدوری کے اعلی درجے پر ہے۔

بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مشایخ نے حمّاد بن عیسی یا حریز بن عبداللہ سجستانی کی کتاب سے اٹھایا ہے، جو یقینا ان کے پاس موجود ہوگی۔ اس زمانے میں حدیث کی کتب کو مشایخ کے پاس قرات کیا جاتا تھا یا جس کی کتاب تھی وہ اپنے شاگردوں کو املا کرتا تھا۔


فوائد الحدیث:

اس حدیث سے کئی باتیں واضح ہوتی ہیں؛

1) وضو کا شیعہ طریقہ قرآن سے ثابت ہے

2) سوال پوچھنا یا فتوی کا ماخذ پوچھنا بالکل بھی غلط نہیں بلکہ ذہنی بالیدگی کا ثبوت ہے۔ زرارہ جیسے جلیل القدر اصحاب آئمہ ع سے مختلف احکامات کی علّتیں یا ان کا ماخذ پوچھتے تھے، لیکن کبھی امام نے نہیں ٹوکا کہ تمہارا کام آنکھ بند کر کے عمل کرنا ہے۔

3) ظاہر قرآن حجت ہیں

4) یہ حدیث اجتہاد کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ امام ع گویا بتا رہے ہیں کہ ہمیں کس طرح سے قرآن و سنّت سے استنباط کرنا ہے۔ امام خمینی(رض) آئمہ(ع) کے دور میں اجتہاد کے وجود پر لکھتے ہیں؛

"ان دلائل میں وہ روایات ہیں جو کتاب اللہ سے حکم شرعی کے استنباط کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جیسے زرارہ کی روایت ۔ غور کرو کہ امام کس طرح سے زرارہ کو کتاب اللہ سے استنباط کا طریقہ سکھا رہے ہیں۔"

(الرّسائل: ج2 ص127)

شیخ حرّ عاملی اس روایت کو اجتہاد سکھانے پر واضح دلیل سمجھتے ہیں۔ آپ "الفصول المھمّہ فی اصول الائمہ" میں اصول فقہ کے باب میں اس روایت کو اس عنوان سے لاتے ہیں "ان الباء تاتی للتبعیض کآیۃ الوضوء والتیمم"۔

دکتر ابوالقاسم گرجی اس روایت کو ان روایات میں شمار کرتے ہیں جو صدر اسلام میں اجتہاد اور اصول فقہ کے وجود پر دلالت کرتے ہیں (تحوّل علم اصول، ص19)

ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ یہ روایت زرارہ کے ضعف ایمان اور بے ادبی پر دلالت کرتی ہے، تو اس کا جواب شیخ بہائی نے مشرق الشمسین میں دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ بے ادبی شمار نہیں ہوں گے اور نہ ضعف اعتقاد ہے، بلکہ زرارہ چونکہ اہل سنّت کے ساتھ مناظرے اور مباحثے کرتے تھے اور وہ ہر بات کی دلیل پوچھتے تھے اس لئے زرارہ امام باقر(ع) سے رہنمائی کے طالب ہوئے۔

والسّلام علی من اتبع الھدی

خاکسار: ابوزین الہاشمی

No comments:

Post a Comment