Friday, May 30, 2014

کیا آئن سٹائن شیعہ تھا؟


٭کیا آئن سٹائن شیعہ تھا؟٭

سوال) کہتے ہیں کہ مشہور سائنسدن البرٹ آئن سٹائن کے عظیم شیعہ مرجع آیت اللہ العظمی برجردی سے تعلقات تھے اور یہ کہ وہ شیعہ ہو گیا تھا، ان باتوں میں کتنی صداقت ہے؟

جواب) آئن سٹائن آیت اللہ بروجردی سے خط و کتابت رکھتا تھا اور ان سے شدید متاثر تھا۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ آخر میں شیعہ ہو گیا تھا۔۔۔ خصوصا معراج پر جانے والی شیعہ روایتیں جن میں درج ہے کہ رسول(ص) ساتوں آسمان کی سیر کر کے واپس آئے تو آپ(ص) کا بستر ابھی گرم تھا یا کنڈا ہل رہا تھا۔۔۔ یہ باتیں اس کی تھیوری *Theory of Relativity* کو ثابت کرتی تھیں۔

کہا جاتا ہے کہ سیّد بروجردی اور آئن سٹائن کے درمیان رابطے کا ذریعہ ایک ایرانی سائنسدان دکتر حسابی بنا جس نے اپنی تعلیم امریکہ سے مکمّل کی تھی اور آئن سٹائن اس کے اساتذہ میں سے تھا۔

آیت اللہ العظمی سیّد بروجردی کی آفیشل ویب سائٹ پر اس خط و کتابت کا تفصیل سے ذکر ہے؛

http://broujerdi.org/content/view/27/70

لیکن معتبر ذرائع سے ابھی اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ کہتے ہیں کہ آئن سٹائن نے اپنی عمر کے آخر میں ایک کتاب لکھی جس میں آیت اللہ بروجردی کا ذکر کرتے ہوئے تشیّع کی طرف میلان کو ظاہر کیا تھا۔ لیکن ان کی اس کتاب کو چھپنے نہیں دیا گیا اور ایک ایرانی پروفیسر ابراھیم مہدوی نے کچھ عرصہ پہلے یہ کتاب ایک یہودی سے گرانقدر قیمت پر خریدی جس کو آئن سٹائن نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے اور ہر صفحے پر اس کے دستخط ہیں۔ اس کتاب میں قرآن اور احادیث سے اپنے نظریات کی بات کی ہے اور بروجردی کے لئے بہت بڑے الفاظ لکھے ہیں۔۔۔ یہ خبر آج سے کچھ سال پہلے پڑھی تھی لیکن اس کتاب کا فارسی ترجمہ ابھی تک نہیں آیا یا شاید میرے علم میں نہیں۔

جہاں تک آئن سٹائن کے شیعہ ہونے کی بات ہے تو سیّد بروجردی کے نواسے آیت اللہ جواد علوی بروجردی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ آئن اسٹائن شیعہ ہوا تھا۔۔۔ لیکن ان کے آیت اللہ بروجردی سے روابط یا اسلام سے متاثر ہونا بالکل ممکن ہے۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

مولا علی(ع) کا ابوجہل کی بیٹی سے شادی کا جھوٹا افسانہ


سوال) السلام علیکم!کیا اس حدیث میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ صحیح ہے؟؟ برادر ابوزین اس حدیث میں بیان کئے گئے واقعے سے متعلق علماء تشیع کا کیا موقف ہے کیا حضرت امیر المومنین ع نے واقعی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ کیا تھا؟

متن حدیث:عن المسور بن مخرمة أنه قال :" إن عليا خطب بنت أبي جهل ، فسمعت بذلك فاطمة فأتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت : يزعم قومك أنك لا تغضب لبناتك ، وهذا علي ناكح بنت أبي جهل ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فسمعته حين تشهد يقول : أما بعد ، أنكحت أبا العاص بن الربيع فحدثني وصدقني ، وإن فاطمة بضعة مني وإني أكره أن يسوءها ، والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وبنت عدو الله عند رجل واحد ، فترك علي الخطبة " وفي رواية للبخاري " فاطمة بضعة مني فمن أغضبها أغضبني " .... !!!البخاري رقم 3523 ، 3556 ، ومسلم برقم 2449

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں) پیغام نکاح دیا، اس کی اطلاع جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئیے یہ علی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا:میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ پڑھتے سنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امابعد:

"میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب رضی اللہ عنہا کی، آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) شادی کرائی تو انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا)ایک ٹکڑا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا۔ "(صحیح بخاری كتاب فضائل الصحابة حدیث نمبر: ٣٨٢٩)۔۔

محمد بن عمرو بن حلحلہ نے ابن شہاب سے یہ اضافہ کیا ہے، انہوں نے علی بن حسین سے اور انہوں نے مسور رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے بنی عبدشمس کے اپنے ایک داماد کا ذکر کیا اور حقوق دامادی کی ادائیگی کی تعریف فرمائی۔ پھر فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات بھی کہی سچی کہی اور جو وعدہ بھی کیا پورا کر دکھایا۔"

جواب) یہ حدیث اہلسنّت کے علمی پیمانوں پر پورا نہیں اترتی، اور ہمارے ہاں تو اس سلسلے میں کوئی معتبر حدیث ہے ہی نہیں۔ اس میں سب سے پہلا راوی مسور بن مخرمہ ہے جو امام علی(ع) کا دشمن شمار ہوتا تھا۔ یہ عبداللہ ابن زبیر کے ساتھیوں میں سے تھا اور جب خانۂ کعبہ میں یزید کی فوج نے منجنیقوں سے حملہ کیا تو مسور بن مخرمہ مارا گیا تھا۔ مشہور سنّی عالم ذھبی کہتے ہیں کہ یہ خوارج کے ساتھیوں میں سے بھی تھا؛

قال الزبير بن بكار كانت [الخوارج] تغشاه وينتحلونه (سیر اعلام النبلاء، ج3 ص391)

ذھبی نیز یہ بھی کہتے ہیں: قال عروة فلم أسمع المسور ذكر معاوية إلا صلى عليه۔۔۔۔۔ یعنی عروہ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی مسور بن مخرمہ کو معاویہ کا نام لیتے ہوئے نہیں سنا مگر یہ کہ معاویہ پر درود بھیجے۔

اب ایسے شخص کی روایت تو ویسے ہی رد ہو جاتی ہے اور جبکہ وہ روایت اپنے دشمن کے بارے میں کرے تو اس کو عقل بھی قبول نہیں کرتی۔

اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ مسور بن مخرمہ اس واقعے کے وقت بچہ تھا۔ علماء نے نقل کیا ہے کہ مسور دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوا، اور یہ واقعہ کم و بیش 8 ہجری کا بتایا جاتا ہے۔ تو چھ سالہ بچہ کیسے روایت نقل کر سکتا ہے؟

اس جھوٹی روایت کو رد کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ قرآن سے متصادم ہے، قرآن واضح طور پر چار شادی کی اجازت دیتا ہے اور اس سلسلے میں کوئی تخصیص نہیں کرتا۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ ص اوروں کی بیٹیوں پر سوکنیں بٹھانے کی اجازت دیں اور اپنی بیٹی پر نہ دیں۔۔۔ کیا یہ عدل کے منافی نہیں؟ اور رسول اللہ(ص) جو تمام عالم اسلام کے لئے نبی ہیں اپنی بیٹی کو اس طرح کی تخصیص دے دیں۔

پس یہ روایت جھوٹی ہے، اور اس کا اعتبار کرنا درست نہیں۔

ہم مولا علی(ع) کے تمام دشمنوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔

والسّلام

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

ایران کے خلاف ایک سازش کا ازالہ


بہت عرصے سے شرپسند حضرات پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ایران میں سنّیوں کے حقوق نہیں، ان کو مساجد بنانے کی اجازت نہیں، اسکولوں کالجز میں ایڈمشن نہیں ملتے، پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی نہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

سو عرض ہے کہ ان باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ایران کے کچھ صوبوں میں سنّی اکثریت میں ہیں جیسے سیستان و بلوچستان، گلستان جہاں ترکمن سنّی ہیں، اور کردستان جہاں کرد ہیں جو اکثر شافعی ہیں۔ ان صوبوں میں کثرت سے سنّی مساجد ہیں اور سنّی بہت آزادی سے ان مساجد میں اذانیں کہتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ یہاں تک کہ مشہد و اصفہان و شیراز جیسے شہروں میں جہاں شیعہ اکثریت میں ہیں، اہلسنّت کی متعدد مساجد ہیں۔

ایران کے گوش و کنار میں سنّی مدارس ہیں جن کے معلّمین کو تنخواہیں حکومت دیتی ہے۔ ایران نے سنّی مدارس اور شیعہ حوزہ جات کے درمیان روابط بڑھانے کی بھی خاطر خواہ کوشش کی ہے، لہذا ہم نے بہت دفعہ دیکھا ہے کہ شیعہ حوزہ جات سے طلباء کو تربیتی کورسز کے لئے سنّی مدارس میں بھیجا جاتا ہے، اور متعدد جگہوں پر دونوں طرف کے علماء کی باہمی علمی کاوشیں بھی سامنے آتی ہیں۔

سنّی اکثریتی علاقوں سے پارلیمنٹ میں سنّی ممبرز بھی کثرت سے منتخب ہوتے ہیں، پس یہ کہنا غلط ہے کہ پارلیمنٹ میں سنّی نہیں ہیں۔

تمام سنّی مساجد کی تعمیر بھی حکومت کرتی ہیں اور تمام اخراجات بھی گورنمنٹ کے ذمّے ہے۔ امام بھی حکومت مقرّر کرتی ہیں جو جمعہ کے دن خطبات بھی دیتے ہیں۔

البتہ تہران میں مسلک کے نام پر مساجد نہیں ہیں۔ ایسا اس لئے کیونکہ ایران "اتحاد بین المسلمین" پر زور دیتا آیا ہے، مسلک کے نام پر مساجد اتحاد کو پارہ پارہ کر دیتی ہے۔ یہاں سنّی بھی شیعہ مساجد میں نماز پڑھتے ہیں اور ہم نے متعدد دفعہ لوگوں کو ہاتھ باندھے نماز پڑھتے بھی دیکھا ہے۔ پس کیا ضرورت ہے کہ مسلک کے نام پر مساجد بنائی جائیں؟ ایسا تو پورے ایران میں ہونا چاھئے تھا لیکن حالات کی وجہ سے دارالحکومت میں اس پر عمل ہو رہا ہے۔

عموما لوگوں کو کچھ حقائق نہیں بتائے جاتے جیسے ایران میں نام لے کر خلفاء و اصحاب کو گالیاں دینا قانونی پر جرم ہے۔ وہاں اس کی اجازت نہیں اور اس کے مرتکب شخص کو پولیس لے جاتی ہے۔ ایسا قانون تو پاکستان جیسے ملک میں بھی نہیں جہاں جو چاہے جب چاہے اہلبیت(ع) تک کی بھی شان میں گستاخی کرے، کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

سنّی نوجوان نسل بھی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہے اور کسی بھی فورم پر مسلک کا سیکشن نہیں ہے۔ ایڈمشن مقابلے کے امتحانات میں پاس ہونے کے بعد ملتے ہیں، اور ایڈمشن میں بھی کسی قسم کا تعصّب نہیں برتا جاتا۔۔ خاکسار جب تہران یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھا تو ہمارے ساتھ متعدّد سنّی اسٹوڈنٹ بھی تھے جو واضح طور پر سنّی اکثریتی صوبوں سے آئے تھے۔ علاوہ ازیں تہران کے اہم ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور متعدد صحافی و انجنیئرز سنّی ہیں، اور ہم نے بہت سے سنّی بزنس مین بھی دیکھے ہیں۔

ایران اتحاد بین المسلمین کے لئے کوشاں ہے، اور یہ بات ان لوگوں کو پسند نہیں آتی جو مسلمانوں کی صفوں میں انتشار دیکھنا چاہتے ہیں اور استعمار کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ان تمام لوگوں سے بیزار ہیں جو شیعہ سنّی کو لڑوا کر اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران تمام دنیا کے لئے نمونۂ عمل ہے۔

اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کر کے اس سازش کا پردہ چاک کریں۔

والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ

ابو زین الہاشمی
منجانب: تحریک تحفظ عقائد شیعہ

علمائے حق کے خلاف ایک سازش کا ازالہ


آجکل بعض دشمنان تشیّع دل کھول کر علمائے حقّہ کی توہین کرنے میں مشغول ہیں بالخصوص رہبر معظّم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کی۔ اس بغض و عناد کی وجہ فقط یہ ہے کہ یہ علماء ان کی کچھ مخصوص گمراہ کن باتوں کو نہیں مانتے اور مخالفت کرتے ہیں۔

حال ہی میں ایک شخص نے دو روایات کے غلط تراجم اور دیگر احادیث سے چشم پوشی کرتے ہوئے امام خامنہ ای پر تنقید کی ہے کہ ان کا ہاتھ شل ہے تو ان کے پیچھے نماز کیسے پڑھی جائے گی۔

انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے؛

وَ قَالَ الصَّادِقُ
 ع لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْقَيْدِ الْمُطْلَقِينَ وَ لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاء

امام صادق(ع): "قیدی آزاد لوگوں کی امامت نہ کرے اور فالج زدہ صحیح و سالم لوگوں کی امامت نہ کرائے۔"

من لا یحضرہ الفقیہ: ج1 ح1107

نیز یہ حدیث بھی ان لوگوں نے نقل کی؛

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ص لَا يَؤُمُّ الْمُقَيَّدُ الْمُطْلَقِينَ وَ لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاءَ وَ لَا صَاحِبُ التَّيَمُّمِ الْمُتَوَضِّينَ وَ لَا يَؤُمُّ الْأَعْمَى فِي الصَّحْرَاءِ إِلَّا أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى الْقِبْلَة

امام صادق(ع) سے منقول ہے کہ امام علی(ع) نے فرمایا: "قیدی زاداد لوگوں کو، کوئی فالج کا مریض تندرست لوگوں کو اور کوئی تیمّم والا باوضو لوگوں کو، اور اندھا بیابان میں جماعت نہ کرائے مگر یہ کہ اس کو قبلہ رخ کر دیا جائے۔"

کافی: ج3 ص376

ان احادیث کے مصداق پر مدلّل گفتگو کرنے سے پہلے ہم ان کی ہیرا پھیری کی طرف اشارہ کرنا چاھیں گے۔ انہوں نے ترجمہ میں لفظ "مفلوج" کا استعمال کیا ہے، عربی کے مطابق تو اس میں حرج نہیں کیونکہ عربی میں "مفلوج" فالج زدہ کو ہی کہا جاتا ہے۔ لیکن اردو میں یہ لفظ کسی معذور کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وہ شخص فالج کا شکار نہ بھی ہو۔ اگر حدیث کا اصل مصداق دیکھیں تو یہ کسی فالج زدہ شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کر رہا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فالج زدہ شخص افعال نماز ادا کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ نہ سجود میں ساتوں اعضائے سجدہ کو زمین پر رکھ سکتا ہے اور نہ رکوع کر سکتا ہے۔

حدیث میں "صاحب الفالج" کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا لغوی مطلب کوئی ایسا شخص ہے جو فالج کا مریض ہو۔ فالج کا اٹیک کبھی مکمّل جسم پر ہوتا ہے اور کبھی آدھے جسم پر۔ ان مدلّسین نے بہت خوبصورتی سے "صاحب الفالج" کی جگہ پر "مفلوج" کا لفط استعمال کیا ہے اور لفظ مفلوج کو معذور کے مترادف پیش کیا ہے جبکہ "معذور" "مفلوج" کا مترادف ہرگز نہیں ہے۔

اب یہاں پر لفظ "مفلوج" استعمال کر کے آیت اللہ خامنہ ای پر اٹیک کیا جا رہا ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای فالج کا شکار نہیں ہیں۔ ان کا ہاتھ ایک بم دھماکے میں تھوڑا شل ہوا، لیکن اس کے باوجود بھی آپ مکمّل طور پر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ سجدہ میں تمام اعضائے سجدہ زمین پر رکھتے ہیں اور صحتمند شخص کی طرح رکوع بھی کرتے ہیں اور قنوت میں ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں۔ البتہ اس بم دھماکے کی وجہ سے قنوت میں ہاتھ مکمّل نہیں اٹھا پاتے۔ یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ یہ لوگ کسی کی مخالفت میں کس حد تک جا سکتے ہیں اور جھوٹ اور مکرو فریب سے کام لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

قیدی کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق بھی علماء نے یہی کہا ہے کہ اس سے مراد وہ قیدی ہے جو زنجیروں میں جکڑا ہو جس کی وجہ سے وہ درست انداز میں نماز کے افعال انجام نہ دے سکے۔

اب ہم ان احادیث کے متن کی طرف آتے ہیں۔ بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چند لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔

1) قیدی
2) فالج زدہ شخص
3) کسی عذر کی وجہ سے تیمّم کرنے والا
4) اندھا

لیکن ہم دیگر احادیث میں دیکھتے ہیں کہ ان مخصوص لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت بھی آئی ہے۔ مثلا قیدی یا غلام کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت کے بارے میں درج ذیل احادیث ہیں؛

عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: قُلْتُ لَه الصَّلَاةُ خَلْفَ الْعَبْدِ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهِ إِذَا كَانَ فَقِيهاً وَ لَمْ يَكُنْ هُنَاكَ أَفْقَهُ مِنْهُ الْحَدِيثَ.

زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر(ع) سے غلام کی اقتداء کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: جب وہ فقیہ ہو اور وہاں اس سے زیادہ بڑا کوئی فقیہ نہ ہو تو پھر جائز ہے۔

کافی: ج3 ص375

َعنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَحَدِهِمَا ع أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْعَبْدِ يَؤُمُّ الْقَوْمَ إِذَا رَضُوا بِهِ وَ كَانَ أَكْثَرَهُمْ قُرْآناً قَالَ لَا بَأْسَ بِهِ 

محمد بن مسلم نے امام باقر یا امام صادق(ع) میں سے کسی سے پوچھا کہ آیا غلام لوگوں کو نماز پڑھا سکتا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ کوئی مضائقہ نہیں۔

تہذیب الاحکام: ج3 ص29

پس ان روایات میں جواز بیان ہوا ہے، اور جو حدیث ان مدلّسین نے بیان کی ہے اس میں غلام یا قیدی کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرنے کو کراہت پر حمل کریں گے یعنی ان کے پیچھے نماز جائز تو ہے لیکن مکروہ ہے۔ یا ہم یوں کہیں گے کہ ان قیدیوں کے پیچھے نماز پڑھنی منع ہے جو زنجیر یا رسّی میں بندھے ہوں جس کی وجہ سے وہ افعال نماز انجام دینے پر قادر نہ ہوں۔

اب ہم تیمّم کرنے والے شخص کے پیچھے امامت پر بات کرتے ہیں۔ مدلّسین کی پیش کردہ روایت کے مطابق تیمّم کرنے والے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا حرام ہے، اور یہی ان کا مطلب ہے، لیکن یہ سب احادیث سے نابلد ہونے کی وجہ سے ہے، یا وہ ان احادیث کے بارے میں جانتے ہیں لیکن عوام کو دھوکہ دینے کے لئے چھپاتے ہیں۔ ہم یہاں وہ احادیث پیش کرتے ہیں جن میں وضو کرنے والوں کا تیمّم کرنے والوں کے پیچھے نماز پڑھنے کا جواز ہے؛

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ رَجُلٍ أَجْنَبَ ثُمَّ تَيَمَّمَ فَأَمَّنَا وَ نَحْنُ طَهُورٌ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهِ


عبداللہ بکیر کہتےہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جو مجنب ہوا تھا لیکن (پانی نہ ملنے کی وجہ سے) تیمّم کیا اور پھر ہمیں نماز پڑھائی جبکہ ہم نے وضو کیا ہوا تھا۔ آپ(ع) نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔

تہذیب الاحکام: ج3 ص167

عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فِي الرَّجُلِ يُجْنِبُ وَ لَيْسَ مَعَهُ مَاءٌ وَ هُوَ إِمَامُ الْقَوْمِ قَالَ نَعَمْ يَتَيَمَّمُ وَ يَؤُمُّهُم


امام صادق(ع) سے پوچھا گیا اس شخص کے بارے میں جو ایک قوم کا پیشنماز ہے اور جنب ہو گیا، مگر اس کے پاس غسل کے لئے پانی نہیں۔ تو آپ(ع) نے فرمایا کہ وہ تیمّم کرے اور لوگوں کو نماز پڑھائے۔

تہذیب الاحکام: ج3 ص167

یہاں پر بھی یہ ثابت ہوا کہ وضو کرنے والوں کے لئے تیمّم کرنے والے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں جو منع آیا ہے ہم اس کو کراہت پر محمول کریں گے، یعنی یہ جائز تو ہے لیکن مکروہ ہے۔ اور علماء کرام نے بھی یہی فرمایا ہے جیسا کہ شیخ حر عاملی اپنی تالیف "وسائل الشیعہ" میں ان روایات کو نقل کیا اور اس باب کا نام رکھا: بَابُ جَوَازِ اقْتِدَاءِ الْمُتَوَضِّئِ بِالْمُتَيَمِّمِ عَلَى كَرَاهِيَة ۔۔۔۔۔ یعنی وضو والوں کا تیمّم والوں کے پیچھے نماز کراہت کے ساتھ پڑھنے کا باب

اب ہم اندھے کے پیچھے نماز پڑھنے کی طرف آتے ہیں۔

امام صادق(ع): اگر اندھا آدمی لوگون کو نماز پڑھائے تومضائقہ نہیں ہے، اگرچہ یہی مقتدی اسے قبلہ رخ کریں۔ (تہذیب الاحکام)

امام باقر و امام صادق(ع): جب مقتدی اندھے آدمی کو پسند کریں اور وہ ان سے زیادہ قاری اور فقیہ ہو تو وہ نماز باجماعت پڑھا سکتا ہے۔ (من لا یحضرہ الفقیہ)

پس یہاں پر بھی یہ ثابت ہوا کہ اندھے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، اور مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں جو منع آیا ہے وہ کراہت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی جائز ہے لیکن مکروہ ہے۔

پس مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں قیدی، تیمّم والے، فالج زدہ اور اندھے کے پیچھے نماز پڑھنا منع نہیں ہے بشرطیکہ وہ نماز کے افعال کو درست انجام دے سکیں، بلکہ وہ روایات مکروہ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اسی لئے شیخ حر عاملی نے مدلّسین کی روایات پر باب باندھا ہے؛

بَابُ كَرَاهَةِ إِمَامَةِ الْمُقَيَّدِ الْمُطْلَقِينَ وَ صَاحِبِ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاء

یعنی قیدی کا آزاد لوگوں کو اور فالج زدہ کا صحیح و سالم کو امامت کرانے میں کراہت کا باب۔

پس بالفرض ہم رہبر کبیر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سیّد علی خامنہ ای کو فالج زدہ بھی مان لیں تو بھی یہ احادیث مکروہ ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔

معصومین(ع) کے نام پر معصومین(ع) کے اقوال کو تروڑ مروڑ کر آدھی بات پیش کر کے مومنین کے دلوں میں شکوک پیدا کرنے والوں پر ہم لعنت بھیجتے ہیں۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

کامل نماز کا طریقہ


حماد بن عیسی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ امام صادق(ع) نے مجھ سے کہا: کیا درست طریقے سے نماز پڑھ سکتے ہو؟

میں نے کہا: میرے آقا میں نے حریز کی کتاب کو یاد کیا ہے جو نماز کے بارے میں ہے۔

آپ(ع) نے فرمایا: تمہارے لئے کافی نہیں ہے، کھڑے ہو کر نماز پڑھو

حماد بن عیسی آپ(ع) کے برابر میں قبلہ رخ کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور رکوع و سجود انجام دیا۔

آپ(ع) نے فرمایا: اے حمّاد! ٹھیک سے نماز نہیں پڑھ رہے ہو۔ ایک شخص کے لئے کتنی بری بات ہے کہ وہ 60 یا 70 سال کی عمر کا ہو چکا ہو اور ایک کامل نماز انجام نہ دے سکتا ہو۔

حماّد کہتے ہیں کہ میں اپنی ہی نگاہوں میں شدید شرمندہ ہوا اور کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، مجھے نماز سکھائیں

امام صادق(ع) اپنے تمام قد کے ساتھ رو بقبلہ کھڑے ہوئے، اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے رانوں پر رکھا اور انگلیوں کو باہم ملایا۔ دونوں پیروں کو قریب لے کر آئے یہاں تک کہ ان کے درمیان فاصلہ تین انگلیوں کے برابر رہا، اور پیروں کی انگلیوں کو قبلہ رخ کیا اور نہایت خشوع اور سکون کے ساتھ "اللہ اکبر" کہا

اس کے بعد حمد اور قل ھو اللہ کو ترتیل اور خوبصورت قرات کے ساتھ پڑھا، اور پھر ایک سانس کے برابر وقفہ لیا۔ اورپھر دونوں ہاتھوں کو چہرے کے مقابل لے گئے اور کہا "اللہ اکبر"

اس کے بعد رکوع میں چلے گئے، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اس حالت میں کہ انگلیاں کھلی ہوئی تھیں اپنے دونوں گھٹنوں کا احاطہ کیا اور گھٹنوں کو پیچھے اس طرح سے کیا کہ ان کی پشت ہموار ہو گئی، اگر پانی یا کوئی روغن بہایا جاتا تو وہ ہرگز نہ گرتی کیونکہ آپ کی پشت بالکل ہموار تھی۔ گردن کو جھکا کر اپنی آنکھوں کو بند کیا اور تین بار بڑے آرام و متانت سے کہا؛

سبحان ربی العظیم وبحمدہ

اس کے بعد کھڑے ہو گئے اور جب حالت سکون میں آگئے تو فرمایا: سمع اللہ لمن حمدہ

اسی طرح کھڑے ہو کر تکبیر کہی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو چہرے کے مقابل لے گئے۔ اس کے بعد سجدے میں گئے اور اپنے ہتھیلیوں کو اس حالت میں کہ انگلیاں باہم ملی ہوئی تھیں اپنے چہرے کے برابر رکھا اور تین بار کہا؛

سبحان ربی الاعلی وبحمدہ

اور اپنے بدن میں کسی عضو کو نہیں ہلایا، اور آٹھ اعضاء کے ساتھ سجدہ کیا۔ دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، دونوں پیروں کے انگوٹھے، پیشانی اور ناک۔

آپ(ع) نے فرمایا: سجدہ میں ان آٹھ اعضاء میں سے سات اعضاء کا زمین پر رکھنا واجب ہے، اور یہ وہی ہیں جن کے بارے میں اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا: وَ أَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً اور یہ اعضاء دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنوں، دونوں پیروں کے انگوٹھے، اور پیشانی ہیں۔ اور ناک کو زمین پر رکھنا سنّت ہے۔

اس کے بعد سر کو سجدہ سے اٹھایا، اور جب زمین پر حالت سکون میں بیٹھ گئے تو اللہ اکبر کہا اور اپنے بائیں طرف اس حالت میں بیٹھے کہ دائیں پیر کے اوپری حصّے کو (جس پر مسح ہوتا ہے) بائیں پیر کی پشت پر رکھا۔ اور کہا؛

استغفر اللہ ربی واتوب الیہ

اور بیٹھ کر ہی دوبارہ تکبیر کہی اور دوسرے سجدے میں گئے اور وہی پڑھا جو پہلے سجدے میں پڑھا۔ رکوع و سجود میں اپنے کسی عضو کو کسی اور عضو پر نہیں رکھا، اور اپنے ہاتھوں کو (سجدے میں) بدن سے باہر کی جانب رکھا اور کہنیوں کو زمین پر نہیں رکھا۔ اسی طرح سے دو رکعت نماز پڑھی اور پھر تشہد کے لئے ایسے بیٹھے کہ ہاتھوں کی انگلیاں باہم ملی ہوئی تھیں۔ اور جب تشہد کے بعد سلام پھیرا تو فرمایا: اے حمّاد اس طرح نماز پڑھا کرو۔

(کافی ج6 ص141 طبع دارالحدیث، من لا یحضرہ الفقیہ ج1 ص300، تہذیب الاحکام ج2 ص81)

مذکورہ حدیث مشایخ ثلاثہ (کلینی و صدوق و طوسی) نے نقل کیا ہے اور تینوں کی اسناد صحیح ہیں۔

اس حدیث سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں؛

اوّل) یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ نماز کی ہمارے آئمہ(ع) کی نگاہوں میں کتنی اہمیت تھی، ان کی نگاہ میں صرف نماز پڑھ لینا کافی نہیں بلکہ نماز کو مکمّل طریقے سے پڑھنا ضروری ہے

دوّم) اس سے ان لوگوں کی بھی رد ہوتی ہے جو مروّجہ نماز کو نماز نہیں سمجھتے، بلکہ کچھ ناموں کو یا نعروں کو یا دیگر افعال کو نماز کا رتبہ دیتے ہیں

سوّم) اگر آئمہ(ع) کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو نماز کو احسن طریقے سے ادا کر کے خدا کی خوشنودی حاصل کریں

چہارم) اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آئمہ(ع) اپنے شیعوں کی تربیت کے لئے کتنے فکرمند رہتے تھے، اس بارے میں ہمارے علماء و عمائدین کو سوچنا چاھئے۔

اصلاح نماز پر ہماری پرانی سیریز کی روشنی میں یہ حدیث پڑھیں تو ان تحریروں کی بھی تاکید مکرّر ہو جاتی ہے۔

وما علینا الاّ البلاغ

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

بچوں کی تکریم



اسلام کی خوبصورت تعلیمات میں سے ایک بچّوں کی تکریم اور احترام کا حکم ہے، تاکہ ایسے لوگ مستقبل کے لئے پروان چڑھیں جن کی عزّت نفس موجود ہو، اور سالم و صالح بدن اور روح کے ساتھ معاشرے کی تشکیل نو کریں۔ اسی لئے رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے؛

اکرمو اولادکم واحسنو آدابکم

یعنی اپنی اولاد کی تکریم کرو اور بہترین آداب کے ساتھ ان کے ساتھ معاشرت کرو


اگر بچوں کی تکریم اور احترام کیا جائے تو وہ صاحب فضل اور شرافت ہوں گے، اور وہ دوسروں کی تکریم کرنا جانیں گے، لیکن اگر ان کی تحقیر یا اہانت کی جائے تو ان کے فضل کی نشوونما متوقّف ہو جائے گی۔ حضرت ختمی مرتب(ص) فرماتے ہیں؛

اذا سمّیتم الولد فاکرموہ واوسعوا لہ فی المجالس ولا تقبّحو لہ وجھا

"جب اپنی اولاد کا نام لو تو اس کی تکریم کرو، اور ان کے لئے بیٹھنے کی جگہ قرار دو (اس کا احترام کرو) اور اس کے ساتھ بدخلقی سے پیش نہ آؤ۔"


رسول اللہ(ص) کی زندگی میں بھی ہمیں ملتا ہے کہ آپ بچوں کی تکریم کا خاص خیال رکھتے تھے، جب آپ کی خدمت میں کوئی بچہ ولادت کے بعد نام رکھوانے کے لئے پیش کیا جاتا تو آپ فورا اس کو گود میں لے لیتے، کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بچّہ نے آپ کی گود میں ہی کپڑے خراب کر دیئے، آس پاس کے لوگ غصّے سے بچے پر چیختے لیکن رسول اللہ(ص) ان کو منع کرتے۔

ایک حدیث ہمیں یوں ملتی ہے؛

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ص بِالنَّاسِ الظُّهْرَ فَخَفَّفَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأَخِيرَتَيْنِ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ لَهُ النَّاسُ هَلْ حَدَثَ فِي الصَّلَاةِ حَدَثٌ قَالَ وَ مَا ذَاكَ قَالُوا خَفَّفْتَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأَخِيرَتَيْنِ فَقَالَ لَهُمْ أَمَا سَمِعْتُمْ صُرَاخَ الصَّبِي

عبداللہ ابن سنان امام صادق(ع) سے نقل کرتے ہیں، آپ(ع) نے فرمایا: "رسول اللہ(ص) ایک دفعہ نماز ظہر لوگوں کے ساتھ (جماعت میں) پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ناگہان آخری دو رکعتوں کو مختصر پڑھا (مستحبات کو چھوڑ کر)۔ جب آپ فارغ ہوئے تو لوگوں نے نے پوچھا کہ آیا نماز میں کچھ ہو گیا؟ تو آپ(ص) نے پوچھا کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے آخری رکعتوں کو بہت مختصر پڑھا۔ تو آپ(ص) فرماتے ہیں: مگر تم لوگوں نے بچّے کی رونے کی آواز نہیں سنی؟

(کافی: ج6 ص48)


مذکورہ حدیث کی سند صحیح ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسول(ص) بچوں کی تکالیف اور ان کی ضروریات کا کتنا خیال رکھتے تھے۔

نقل کیا گیا ہے کہ رسول(ص) عملی طور پر بھی بچوں کی تکریم کرتے تھے۔ جب کہیں روانہ ہوتے تو راستے میں لوگوں کے بچّے آپ کے احترام میں کھڑے ہو جاتے۔ آپ ان بچوں کو اٹھاتے، کسی کو گود میں لیتے اور کسی کو اپنی پشت پر چڑھاتے اور اپنے اصحاب سے فرماتے کہ بچّوں کو گود میں لیا کرو اور اپنی دوش پر چڑھایا کرو۔۔۔ بچّے اس بات سے بہت خوش ہوتے اور ان یادوں کو کبھی فراموش نہ کرتے، جب بڑے ہونے کے بعد کبھی جمع ہوتے تو ایک دوسرے کو یہ بات سنا کر فخر کرتے۔ (المحجۃ البیضاء: ج3 ص367)

آپ(ص) کی عادت تھی کہ جب بھی کسی بچّے سے ملتے اس کو سب سے پہلے خود سلام کرتے تاکہ اس کی تکریم ہو اور تاکید کرتے کہ ان کی اس سنّت پر عمل کیا جائے۔ چنانچہ مروی ہے؛

إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص مَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ

رسول اللہ(ص) کچھ بچوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے ان کو سلام کیا۔ (مکارم الاخلاق: ص16)

شیخ صدوق کی امالی میں ایک حدیث ہے جس میں رسول اللہ(ص) فرماتے ہیں کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کو میں مرتے دم تک ترک نہیں کروں گا تاکہ میرے بعد یہ میری سنّت بن جائیں (جن پر لوگ عمل کریں)۔ آپ(ص) کے فرمان کے مطابق ان میں سے ایک چھوٹوں پر سلام ہے۔ (امالی صدوق ص44، بحارالانوار: ج16ص215)

جبکہ ہمارے ہاں دیکھا گیا ہے کہ بڑے اپنے بچّوں کو سلام نہ کرنے پر ٹوکتے ہیں۔ اگر ان کی عادت سلام میں پہل کرنا نہیں ہے تو کسی بڑے کے سلام کرنے سے خود شرمندہ ہو جائیں گے اور اپنی سلام نہ کرنے کی عادت کو ترک کر دیں گے۔ بعض منچلے تو ایسے ہیں کہ کسی چھوٹے کے سلام نہ کرنے پر اس کو "وعلیکم السلام" کہہ کر شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کیا ہم اپنے رسول(ص) کی ان سنّتوں پر عمل کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچّوں اور دوسرے بچوں کی اس طرح تکریم کرتے ہیں؟ کیا ہم ان کو گود میں اٹھا کر پیار کرتے ہیں؟

جب بچوں کے ساتھ تکریم کرنے پر اتنی اہمیت ہے تو ہم میں جو عمر، علم اور کردار کے لحاظ سے بڑے ہیں ان کی تکریم کی اہمیت کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔

ان سنّتوں پر عمل کیجئے تاکہ ہمارا معاشرہ اخلاقی لحاظ سے بہترین معاشرہ ہو۔

وما علینا الا البلاغ

خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

نسل اور نسب کی فضیلت نہیں


٭نسل اور نسب کی فضیلت نہیں: فضیلت صرف تقوی کی ہے٭

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ الْمُتَوَكِّلِ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيُّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رِئَابٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْحَذَّاءِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ لَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَكَّةَ قَامَ عَلَى الصَّفَا فَقَالَ يَا بَنِي هَاشِمٍ يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّي ر
َسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ وَ إِنِّي شَفِيقٌ عَلَيْكُمْ لَا تَقُولُوا إِنَّ مُحَمَّداً مِنَّا فَوَ اللَّهِ مَا أَوْلِيَائِي مِنْكُمْ وَ لَا مِنْ غَيْرِكُم إِلَّا الْمُتَّقُونَ أَلَا فَلَا أَعْرِفُكُمْ تَأْتُونِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْمِلُونَ الدُّنْيَا عَلَى رِقَابِكُمْ وَ يَأْتِي النَّاسُ يَحْمِلُونَ الْآخِرَةَ أَلَا وَ إِنِّي قَدْ أَعْذَرْتُ فِيمَا بَيْنِي وَ بَيْنَكُمْ وَ فِيمَا بَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ بَيْنَكُمْ وَ إِنَّ لِي عَمَلِي وَ لَكُمْ عَمَلُكُم
امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ(ص) نے مکّہ فتح کیا تو آپ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور فرمایا:

"اے بنی ھاشم! اے بنی عبدالمطلب!

میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اور میں تمہارا شفیق اور دلسوز ہوں، مجھے تم سے محبّت ہے۔۔۔ لہذا یہ مت کہو کہ محمد(ص) ہم میں سے ہیں۔۔۔ اللہ کی قسم تم (بنی ہاشم) میں سے اور دیگر (قبائل و اقوام) میں سے متّقین کے سوا میرا کوئی دوست نہیں ہے۔

جان لو میں تمہیں روز محشر نہیں پہچانوں گا کیونکہ تم نے دنیا کی محبّت کو دوش پر سوار کیا ہوگا جبکہ دیگر لوگوں نے آخرت کو دوش پر اٹھایا ہوگا۔

یاد رکھو! میں نے اپنے اور تمہارے درمیان، اور اللہ اور تمہارے درمیان کسی قسم کا عذر اور بہانہ نہیں چھوڑا۔ میرے ذمّے میرا عمل ہے اور تمہارے ذمّے تمہارا عمل ہے۔"

(کافی: ج8 ص182، صفات الشیعہ: حدیث8)

رجال الحدیث:

اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں

درایت الحدیث:

اس روایت کو شیخ کلینی اور صدوق دونوں نے نقل کیا۔ شیخ صدوق کی سند صحیح ہے۔ یہ حدیث حکم قرآنی کے بھی عین مطابق ہے "انّ اکرمکم عنداللہ اتقاکم"، لہذا متن اور سند دونوں اعتبار سے یہ درجۂ اعتبار پر فائز ہے۔

فوائد الحدیث:

کسی بھی نسل کو برتری حاصل نہیں ہے، معیار خون اور نسل نہیں بلکہ تقوی اور پرھیزگاری ہے۔ مومن مومن کا کفو ہے، لہذا کوئی بھی مومن کسی بھی مومنہ سے شادی کر سکتا ہے، نسلی برتری اور تفاخر کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔

سادات کا احترام امّتی اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ان کو خاندان عصمت سے نسبت ہے۔ لیکن سادات کو تفاخر کا اظہار نہیں کرنا چاھئے اور نہ ہی دیگر نسلوں کو پست سمجھنا چاھئے، بلکہ اس نسبت کی وجہ سے ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سادات کو تو تقوی اور پرھیزگاری میں باقی سب سے افضل ہونا چاھئے تب جا کر وہ اپنے آپ کو فخریہ سادات قرار دے سکتے ہیں۔

یہ نسبت روز محشر کسی قسم کا فائدہ نہیں دے سکتی۔ اور یاد رہے کہ نبی(ص) سے نسب جوڑنے والے وہاں ہوں اور ان کے نامۂ اعمال سبک ہوں اور حقوق الناس کی رعایت نہ کرتے ہوں تو یقینا یہ لوگ کن کو شرمندہ کریں گے؟

اللہ تعالی ہم سب کی ہدایت کرے۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

کونڈوں کی شرعی حیثیت


س) کیا کونڈے جائز ہیں؟ کیا یہ بات درست ہے کہ شیعہ اس لئے اس دن کو مناتے ہیں کیونکہ اس دن امیر معاویہ کی وفات ہوئی؟

ج) اس سوال کی کئی جہات ہیں، مؤمنین بلکہ مسلمین بلکہ کسی بھی انسان کو کھانا کھلانا یا اطعام کرنا یا دعوت کرنا باعث ثواب ہے۔ اگر اس رسم کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ باعث ثواب ہے۔

اس سوال کی دوسری جہت یہ ہے کہ کیا رجب کے مہینے میں ہی اس کو منانے کی کوئی شرعی دلیل ملتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں کوئی شرعی دلیل نہیں ملتی کہ 22 رجب کو فلاں کیفیت کے ساتھ دعوتیں کی جائیں۔ ہاں اگر مومنین کو اطعام کی نیّت سے ہے تو کسی بھی دن خوب رہے گا، لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ 22 رجب کو ہی اس خاص کیفیت سے کونڈے کرنے کا کوئی حکم معصوم کی طرف سے صادر ہوا ہے۔

شاید آپ میں بہت سوں کے لئے یہ بات نئی ہو، یہ کونڈے برّصغیر کی رسم ہے، اس کی شروعات بیسویں صدی کے اوائل یا انیسویں صدی کے اواخر میں اتر پردیش سے ہوئی۔ وہاں سے پھر یہ پنجاب و سندھ وغیرہ بھی پہنچا۔ اسی لئے برّصغیر کے دیگر علاقوں جیسے مقبوضہ جمّوں و کشمیر، لداخ و بلتستان، گلگت و پاراچنار وغیرہ میں ایسی کوئی رسم نہیں ہے۔ برّصغیر سے باہر ایران و عراق، افغانستان، ترکی، لبنان، بحرین، شام و آذربائجان میں اس کا تصوّر بھی محال ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ مشہور کہانی جو کونڈوں کے موقعے پر پڑھی جاتی ہے خالص ہندوستانی اختراع ہے۔

یہاں اس سوال کے تیسرے جہت پر کلام کریں گے، اور وہ ہے لکڑہارے کی مشہور کہانی جو کونڈوں کے مواقع پر پڑھی جاتی ہے۔ یہ کہانی کافی لمبی چوڑی ہے جس کا ذکر طوالت کا باعث بنے گا، مختصر یہ کہ کسی لکڑہارے کے گھر پر فاقے ہو رہے تھے تو امام صادق(ع) نے ان کو خاص کیفیت میں پوڑیاں پکا کر کونڈوں میں بھر کر کھلاؤ۔ اس لکڑہارے نے ایسا کیا تو اس کی قسمت جاگی خزانہ ملا۔ اس کی بیوی پہلے کسی وزیر کے گھر پر خادمہ تھی، جب اس کی قسمت جاگی تو وزیر کی بیوی کو ان کونڈوں کے اسرار کا پتہ چلا لیکن اس نے ماننے سے انکار کیا۔ اس انکار کی اس کو سخت سزا ملی، وزیر کو اپنی وزارت سے ہٹا دیا گیا۔ بادشاہ کا بیٹا غائب ہوا تو دشمنوں نے افواہ اڑائی کہ کہیں اس وزیر نے تو بیٹے کو ہلاک نہیں کیا۔ وزیر کی بیوی خربوزہ یا تربوز خرید رہی تھی ان کو پکڑ لیا گیا، بادشاہ نے اس کے ہاتھ میں رومال دیکھ کر کہا کہ اس میں کیا ہے تو وزیر نے کہا خربوزہ ہے لیکن کھول کر دیکھا گیا تو بادشاہ کے بیٹے کا سر نکلا۔ ان کو قتل کرنے کی سزا ہوئی، جب میاں بیوی بیٹھے تو انہوں نے سوچا کہ آخر ان سے کیا غلطی ہوئی ہے، تو بیوی نے بتایا کہ اس نے کونڈوں کا انکار کیا تھا، اس پر دونوں توبۂ نصوح کرتے ہیں اور کونڈوں کی منّت مانتے ہیں۔ جب بادشاہ نے دوبارہ بلایا اور رومال کھولا تو بیٹے کا سر نہیں تھا بلکہ وہ خربوزہ ہی تھا۔ بادشاہ یہ دیکھ کر سٹپٹا گیا تو وزیر نے کونڈوں کی کرامتیں سنائیں تو بادشاہ ششدر رہ گیا (ہم نے کہانی مختصر طور پر نقل کفر کفر نباشد کے مصداق لکھی ہے)۔

ہم نے یہ کہانی بہت مختصر کر کے سنائی ہے، اس پوری کہانی کو پڑھنے کے بعد اس بناوٹی کہانی پر لب کشائی کے لئے بھی الفاظ نہیں۔ واضح ہے کہ یہ کہانی یوپی کے کسی بانکے نے بنائی ہے، کیونکہ امام جعفر صادق(ع) کے دور میں بادشاہت میں وزارت کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔ امویوں کے دورخلافت میں وزیر اعظم کا کوئی عہدہ نہیں ملتا، امام(ع) کا آخری دور عباسیوں کے عروج حاصل کرنے کا زمانہ تھا۔ اس میں بھی اس منصب کا کوئی وجود نہیں ملتا، بعد میں جب عباسی حکومت مستحکم ہوئی تو اس منصب کو بنایا گيا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مدینہ میں کسی قسم کی بادشاہت تھی ہی نہیں، بادشاہ کا دارالحکومت اموی دور میں دمشق تھا اور عباسیوں نے بغداد کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ لہذا اس کہانی پر کچھ کہنا وقت ضائع کرنے کے برابر ہے۔

اب یہ تو واضح ہے کہ یہ کہانی معصوم(ع) سے کسی طور منسوب نہیں، تو اس کہانی کا پڑھنا کیسا ہے؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ جب کسی واقعے کا جعلی ہونا ثابت ہو جائے تو اس کو نقل کرنا معصومین(ع) پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ اگر بالفرض جعلی ہونا واضح نہ ہوتا تب بھی اس کا کسی مستند کتاب میں موجود نہ ہونا ہی اس کہانی کو پڑھنے کے عدم جواز کے لئے کافی تھا۔

سوال کی آخری جہت یہ ہے کہ کیا اس دن کو امیر معاویہ کی وفات کی وجہ سے منانا مقصود ہوتا ہے۔ اس کا جواب بہت واضح سا ہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اولاً اس الزام کا شرعی ثبوت کیا ہے؟ محض الزام لگانا کافی نہیں۔ امیر معاویہ کی وفات رجب کے مہینے میں ضرور ہوئی لیکن کوئی معتبر تاریخی حوالہ نہیں کہ 22 رجب کو ہوئی۔ دوّم یہ کہ اس دن کوئی خوشی نہیں منائی جاتی اور محض نیاز دلائی جاتی ہے جو اس لکڑہارے کی کہانی کی وجہ سے ہے۔

نتیجہ گیری:

اوپر پوری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بذات خود کونڈے کھلانے اور اطعام مسلمین میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ باعث ثواب ہے، لیکن اس دن جعلی کہانی پڑھ کر معصومین ع پر جھوٹ نہ باندھا جائے۔ اگر کونڈے دلانا مقصود ہو تو فقط اس نیّت سے کھلائیں کہ اللہ کی رضا کے لئے مومنین کو دعوت دے رہے ہیں، اور جعلی کہانی کے بجائے کوئی معتبر دعا پڑھ لیں یا سورہ یس وغیرہ کی تلاوت کر لیں۔

والسّلام علی من اتبع الھدی

خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

شیخ صدوق کی لکھی ہوئی کتاب "مدینۃ العلم" کا وجود


"مدینۃ العلم" ایک گمشدہ کتاب

س) کہا جاتا ہے کہ شیخ صدوق نے "من لایحضرہ الفقیہ" سے بھی ضخیم کتاب لکھی تھی، لیکن یہ ناپید ہو گئی۔ علامہ مجلسی نے اس کتاب کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن نہیں ملی۔ اس کی حقیقت سے آگاہ کریں نیز کیا وجوہات تھیں جو یہ کتاب ناپید ہوئی؟

ج) یہ واقعی ایک معمّہ ہے، اگر یہ کتاب اس قدر اہم ہوتی تو اس کا ناپدید ہونا سمجھ سے باہر ہے۔ کتب اربعہ اوائل سے لے کر اب تک شیعوں کے درمیان تواتر کے ساتھ موجود رہی، آخر کیا وجہ ہے کہ اتنی عظیم کتاب سے بے اعتنائی برتی گئی؟ آخر چند نسخے چند لوگوں کے پاس ہی کیوں بچے تھے؟ تاریخ میں ہمیں شیخ طوسی کے کتابخانے کے جلائے جانے کا ذکر ملتا ہے، لیکن سید مرتضی کا کتابخانہ پھر بھی بچا تھا جو شیخ طوسی سے بھی بڑا تھا، اور اس عظیم سرمائے سے شیخ طوسی بھی استفادہ کرتے رہے۔

اس کتاب "مدینۃ العلم" کا تذکرہ خود شیخ صدوق علیہ الرّحمہ نے عیون اخبار الرضا میں کیا ہے،شیخ طوسی اپنی کتاب "فہرست مصنّفات علمای امامیہ" میں شیخ صدوق کی کتب میں سے چالیس کتب کا نام لیتے ہیں جن میں سے ایک "مدینۃ العلم" ہے، مزید تصریح کرتے ہیں کہ یہ کتب حجم میں "من لا یحضرہ الفقہ" سے بھی بڑا تھا۔ شیخ نجاشی بھی اپنی کتاب میں شیخ صدوق کی 194 کتب کے نام لیتے ہیں جن میں سے آٹھویں "مدینۃ العلم" ہے۔

ابن شہر آشوب نے معالم العلماء میں ادّعا کیا ہے کہ مدینۃ العلم دس جلدوں پر مشتمل تھا، درحالیکہ من لا یحضرہ الفقیہ چار جلدوں میں ہے۔ شہید اوّل اپنی کتاب "ذکری" میں لکھتے ہیں کہ من لا یحضرہ الفقیہ اور مدینۃ العلم دونوں کو ملا لیا جائے تو یہ کافی کے برابر ہے۔

یہ کتاب شیخ بہائی کے والد حسین بن عبدالصمد کے پاس تھی اور انہوں نے کتب معتبرہ میں اس کا شمار کیا ہے، بلکہ قرین قیاس یہ ہے کہ ان کے بیٹے شیخ بہائی کے پاس بھی تھی۔ اسی زمانے میں ایک اور عالم سید حسین بن حیدر کرکی اپنے شاگرد کو دیگر کتب حدیث کا اجازہ دیتے ہیں تو کتاب مدینۃ العلم کا بھی دیتے ہیں۔

لیکن جب علامہ مجلسی کا دور آتا ہے تو یہ کتاب ایک دم نایاب ہو جاتی ہے، علامہ مجلسی نے کافی تگ و دو کی لیکن یہ کتاب ان کو نہیں ملی، کہا جاتا ہے کہ ان کے ایک حریف سید محمد میرلوحی اصفہانی کے پاس یہ کتاب موجود تھی۔ علامہ مجلسی نے ان سے درخواست کی کہ یہ کتاب ان کو استنساخ کے لئے دی جائے تاکہ وہ اس کتاب کو اپنے مجموعے بحارالانوار میں شامل کر سکیں۔ کہا جاتا ہے کہ سید محمد میرلوحی نے حسد کی وجہ سے یہ کتاب ان کو نہیں دی۔ بعد میں جب افغانیوں نے ایران پر حمل کیا اور اصفہان کو غارت کیا تو یہ کتاب بھی ضائع ہو گئی۔

ان کے بعد قاجاری دور میں ایک اور عالم سید محمد باقر شفتی نے اس کتاب کو حاصل کرنے کی بہت کوشش کی۔ کہا جاتا ہے کہ کافی پیسہ خرچ کر کے انہوں نے یمن میں اس کتاب کو ڈھونڈوایا لیکن یہ کتاب ان کو یمن سے بھی نہ ملی۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کتاب اچانک سے کیسے غائب ہو گئی؟ اگر وہ اتنی عظیم کتاب تھی تو ہمارے علماء نے طوسی سے لے کر شیخ بہائی تک اس کتاب سے نقل کیوں نہ کیا؟ ابن ادریس حلّی و سید ابن طاؤوس و علامہ حلّی و شہیدین اوّل و ثانی نے بہت سی فقہی کتب لکھیں جن میں کتب اربعہ سے کثرت سے نقل کر کے ان سے استنباط کیا۔ لیکن ہمیں مدینۃ العلم سے بہت کم روایات ملتی ہیں۔ ایک فاضل حسین کریمی کی تحقیق کے مطابق تمام کتب فقہ، رجال و حدیث و ادعیہ کو گھنگالنے کے بعد فقط 20 روایات ملتی ہیں جو مدینۃ العلم سے لی گئی تھیں۔ یہ نہایت عجیب سی بات ہے لیکن ساتھ ساتھ ہمیں کسی نتیجے تک پہنچنے میں مدد کرتی ہے۔

غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مدینۃ العلم ایک حدیث کا مجموعہ ضرور تھا لیکن اس میں بہت کم ایسی احادیث تھیں جو کتب اربعہ میں نہ ہوں۔ جس طرح اصحاب کی لکھی ہوئی اصول اربعماہ کتب اربعہ کے بعد ناپید ہو گئيں کیونکہ ساری احادیث ان کتب میں سما گئی تھیں، اسی طرح سے مدینۃ العلم کو بھی ساتھ رکھنے اور نسخہ کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہی تھی۔ لہذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مدینۃ العلم کے ناپید ہونے سے بہت بڑا حدیث کا مجموعہ ناپید ہوا، کیونکہ اس میں روایات مشہور کتب کے مجموعے سے ہٹ کر نہیں تھیں اسی لئے علماء نے قرون وسطی کے بعد اس کی حفاظت کے معاملے میں تساہل سے کام لیا۔

واللہ اعلم بالصواب

خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

27 رجب: معراج یا بعثت؟


س) کیا 27 رجب کی رات رسول اللہ(ص) کی معراج کی رات تھی یا ان کی بعثت کی رات تھی؟

جواب) اس بابت مسلمانوں میں شیعہ اور سنّی مسالک کے درمیان اختلاف ہے۔ شیعہ علماء کے درمیان مشہور یہ ہے کہ اس دن رسول اللہ(ص) کو رسالت کے لئے مبعوث کیا گیا، جبکہ اہلسنّت کے ہاں مشہور ہے کہ اس دن آپ کا سفر معراج ہوا۔

برّصغیر کے شیعوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ان کے ہاں بھی اس شب معراج ہوا، چنانچہ وہ بھی اس دن ایک دوسرے کو شب معراج کی مبارکبادی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ یقینا سنّی اکثریت کے اثرات کی وجہ سے ہے۔


دوسری طرف ایران میں اہل سنّت اس دن کو عید مبعث کے حوالے سے مناتے ہیں، یہ بھی یقینا شیعہ اکثریت کے اثرات کی وجہ سے ہے۔ البتہ ایران میں خود سنّیوں کے درمیان اس بات پر تنازعہ رہتا ہے کہ اس شب معراج ہوئی یا عید مبعث ہوا۔

اس اختلاف سے قطع نظر سوال یہ اٹھتا ہے کہ شیعہ مسلک کے مطابق رسول پاک(ص) کی معراج کس دن ہوئی؟ علماء میں مشہور یہ ہے کہ 17 رمضان کو آپ کو معراج کی سعادت نصیب ہوئی۔ بعض اقوال اور روایات کے مطابق 21 رمضان بھی ملتا ہے۔ علاوہ ازیں ہمیں ربیع الاول و محرّم کے بھی اقوال ملتے ہیں۔ یہ بات زیادہ مناسب لگتی ہے کہ رسول اللہ(ص) کو ایک سے زائد دفعہ سفر معراج نصیب ہوا، ممکن ہے کہ یہ تاریخ میں اختلاف اسی وجہ سے ہو۔ علامہ طباطبائی(قدس سرّہ) نے قرآن مجید میں سورہ نجم کی آیت 13 سے استفادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آنجناب(ص) دو دفعہ سفر معراج پر گئے۔

وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى

اور بتحقیق انہوں نے پھر ایک مرتبہ اسے دیکھ لیا،

یاد رہے کہ یہ سورہ نجم کی وہ آیات ہیں جو سفر معراج کے بارے میں ہی ہیں۔ البتہ علامہ طباطبائی نے دو دفعہ سے زیادہ سفر معراج کو بعید کہا ہے۔

داعی الی الحق: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ


سوال) کیا خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے؟ اور کیا اس کے لئے دعائے مغفرت کی جا سکتی ہے؟

جواب) ہمارے ہاں ایک عام غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جس نے خودکشی کر لی اس کا غسل و کفن، مجلس ترحیم اور رحمت و مغفرت کی دعا جائز نہیں ہے۔ یہ ایسی غلط فہمی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خودکشی کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا ہے۔

لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ خودکشی کرنے والا ایک عظیم گناہ کا مرتکب ہوا ہے، جس طرح گناہان کبیرہ کو انجام دینے سے انسان جہنم کا حقدار ہو جاتا ہے اسی طرح خودکشی کرنے سے بھی ہو جاتا ہے بلکہ اپنی جان جو کہ اللہ کی امانت ہے اس کو ختم کر دینا ایک بہت بڑا گناہ ہے۔

خودکشی اس لئے بھی سنگین ہے کیونکہ اس میں انسان کے پاس توبہ کے راستے ختم ہو جاتے ہیں۔ دیگر گناہوں میں انسان صدق دل سے استغفار کر سکتا ہے یا حقوق العباد سے متعلق گناہوں کا مرتکب ہوا ہے تو ان لوگوں سے معافی مانگ سکتا ہے یا نقصانات کا ازالہ کر سکتا ہے لیکن خودکشی کی صورت میں مذکورہ شخص اس دنیا میں ہی موجود نہیں رہتا کہ استغفار کر سکے تو پھر جہنّم اس کا مقدّر ہے۔

علاوہ ازیں خودکشی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی رحمت سے مایوس ہو گیا جو بذات خود ایک عظیم گناہ ہے۔


لیکن ان تمام باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے باقی تمام اچھے اعمال بیکار گئے اور اس کا غسل و کفن و دفن جائز نہیں۔ ہم کتنے ہی گنہگار لوگوں کو غسل دیتے ہیں تجہیز و تکفین کرتے ہیں اور ایصال ثواب وغیرہ کرتے ہیں، اسی طرح ایک خودکشی کرنے والے شخص کے لئے بھی یہ سب جائز ہے۔ جیسے تمام مسلمانوں کے لئے نماز جنازہ میں شرکت واجب کفائی ہے، اسی طرح ایک خودکشی کرنے والے مسلمان کی نماز جنازہ میں بھی شرکت واجب کفائی ہے۔

ہر شخص جس کا نامۂ اعمال کا بایاں پلڑا بھاری ہو وہ جہنّم میں جائے گا چاہے وہ مسلمان ہو۔ ہاں وہ مسلمان اپنے اعمال کی سزا پا کر جنّت میں جائے گا، یہی بات خودکشی کرنے والے کے لئے بھی ہے۔ وہ خودکشی کر کے دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہو جاتا لیکن یہ جرم اتنا سنگین ہے کہ اس کے نامۂ اعمال پر بھاری ہوگا۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ