Friday, May 30, 2014

ایران کے خلاف ایک سازش کا ازالہ


بہت عرصے سے شرپسند حضرات پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ایران میں سنّیوں کے حقوق نہیں، ان کو مساجد بنانے کی اجازت نہیں، اسکولوں کالجز میں ایڈمشن نہیں ملتے، پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی نہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

سو عرض ہے کہ ان باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ایران کے کچھ صوبوں میں سنّی اکثریت میں ہیں جیسے سیستان و بلوچستان، گلستان جہاں ترکمن سنّی ہیں، اور کردستان جہاں کرد ہیں جو اکثر شافعی ہیں۔ ان صوبوں میں کثرت سے سنّی مساجد ہیں اور سنّی بہت آزادی سے ان مساجد میں اذانیں کہتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔ یہاں تک کہ مشہد و اصفہان و شیراز جیسے شہروں میں جہاں شیعہ اکثریت میں ہیں، اہلسنّت کی متعدد مساجد ہیں۔

ایران کے گوش و کنار میں سنّی مدارس ہیں جن کے معلّمین کو تنخواہیں حکومت دیتی ہے۔ ایران نے سنّی مدارس اور شیعہ حوزہ جات کے درمیان روابط بڑھانے کی بھی خاطر خواہ کوشش کی ہے، لہذا ہم نے بہت دفعہ دیکھا ہے کہ شیعہ حوزہ جات سے طلباء کو تربیتی کورسز کے لئے سنّی مدارس میں بھیجا جاتا ہے، اور متعدد جگہوں پر دونوں طرف کے علماء کی باہمی علمی کاوشیں بھی سامنے آتی ہیں۔

سنّی اکثریتی علاقوں سے پارلیمنٹ میں سنّی ممبرز بھی کثرت سے منتخب ہوتے ہیں، پس یہ کہنا غلط ہے کہ پارلیمنٹ میں سنّی نہیں ہیں۔

تمام سنّی مساجد کی تعمیر بھی حکومت کرتی ہیں اور تمام اخراجات بھی گورنمنٹ کے ذمّے ہے۔ امام بھی حکومت مقرّر کرتی ہیں جو جمعہ کے دن خطبات بھی دیتے ہیں۔

البتہ تہران میں مسلک کے نام پر مساجد نہیں ہیں۔ ایسا اس لئے کیونکہ ایران "اتحاد بین المسلمین" پر زور دیتا آیا ہے، مسلک کے نام پر مساجد اتحاد کو پارہ پارہ کر دیتی ہے۔ یہاں سنّی بھی شیعہ مساجد میں نماز پڑھتے ہیں اور ہم نے متعدد دفعہ لوگوں کو ہاتھ باندھے نماز پڑھتے بھی دیکھا ہے۔ پس کیا ضرورت ہے کہ مسلک کے نام پر مساجد بنائی جائیں؟ ایسا تو پورے ایران میں ہونا چاھئے تھا لیکن حالات کی وجہ سے دارالحکومت میں اس پر عمل ہو رہا ہے۔

عموما لوگوں کو کچھ حقائق نہیں بتائے جاتے جیسے ایران میں نام لے کر خلفاء و اصحاب کو گالیاں دینا قانونی پر جرم ہے۔ وہاں اس کی اجازت نہیں اور اس کے مرتکب شخص کو پولیس لے جاتی ہے۔ ایسا قانون تو پاکستان جیسے ملک میں بھی نہیں جہاں جو چاہے جب چاہے اہلبیت(ع) تک کی بھی شان میں گستاخی کرے، کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

سنّی نوجوان نسل بھی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہے اور کسی بھی فورم پر مسلک کا سیکشن نہیں ہے۔ ایڈمشن مقابلے کے امتحانات میں پاس ہونے کے بعد ملتے ہیں، اور ایڈمشن میں بھی کسی قسم کا تعصّب نہیں برتا جاتا۔۔ خاکسار جب تہران یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھا تو ہمارے ساتھ متعدّد سنّی اسٹوڈنٹ بھی تھے جو واضح طور پر سنّی اکثریتی صوبوں سے آئے تھے۔ علاوہ ازیں تہران کے اہم ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور متعدد صحافی و انجنیئرز سنّی ہیں، اور ہم نے بہت سے سنّی بزنس مین بھی دیکھے ہیں۔

ایران اتحاد بین المسلمین کے لئے کوشاں ہے، اور یہ بات ان لوگوں کو پسند نہیں آتی جو مسلمانوں کی صفوں میں انتشار دیکھنا چاہتے ہیں اور استعمار کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ان تمام لوگوں سے بیزار ہیں جو شیعہ سنّی کو لڑوا کر اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران تمام دنیا کے لئے نمونۂ عمل ہے۔

اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کر کے اس سازش کا پردہ چاک کریں۔

والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ

ابو زین الہاشمی
منجانب: تحریک تحفظ عقائد شیعہ

No comments:

Post a Comment