Friday, May 30, 2014

نسل اور نسب کی فضیلت نہیں


٭نسل اور نسب کی فضیلت نہیں: فضیلت صرف تقوی کی ہے٭

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ الْمُتَوَكِّلِ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيُّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رِئَابٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْحَذَّاءِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ لَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَكَّةَ قَامَ عَلَى الصَّفَا فَقَالَ يَا بَنِي هَاشِمٍ يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّي ر
َسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ وَ إِنِّي شَفِيقٌ عَلَيْكُمْ لَا تَقُولُوا إِنَّ مُحَمَّداً مِنَّا فَوَ اللَّهِ مَا أَوْلِيَائِي مِنْكُمْ وَ لَا مِنْ غَيْرِكُم إِلَّا الْمُتَّقُونَ أَلَا فَلَا أَعْرِفُكُمْ تَأْتُونِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْمِلُونَ الدُّنْيَا عَلَى رِقَابِكُمْ وَ يَأْتِي النَّاسُ يَحْمِلُونَ الْآخِرَةَ أَلَا وَ إِنِّي قَدْ أَعْذَرْتُ فِيمَا بَيْنِي وَ بَيْنَكُمْ وَ فِيمَا بَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ بَيْنَكُمْ وَ إِنَّ لِي عَمَلِي وَ لَكُمْ عَمَلُكُم
امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ(ص) نے مکّہ فتح کیا تو آپ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور فرمایا:

"اے بنی ھاشم! اے بنی عبدالمطلب!

میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اور میں تمہارا شفیق اور دلسوز ہوں، مجھے تم سے محبّت ہے۔۔۔ لہذا یہ مت کہو کہ محمد(ص) ہم میں سے ہیں۔۔۔ اللہ کی قسم تم (بنی ہاشم) میں سے اور دیگر (قبائل و اقوام) میں سے متّقین کے سوا میرا کوئی دوست نہیں ہے۔

جان لو میں تمہیں روز محشر نہیں پہچانوں گا کیونکہ تم نے دنیا کی محبّت کو دوش پر سوار کیا ہوگا جبکہ دیگر لوگوں نے آخرت کو دوش پر اٹھایا ہوگا۔

یاد رکھو! میں نے اپنے اور تمہارے درمیان، اور اللہ اور تمہارے درمیان کسی قسم کا عذر اور بہانہ نہیں چھوڑا۔ میرے ذمّے میرا عمل ہے اور تمہارے ذمّے تمہارا عمل ہے۔"

(کافی: ج8 ص182، صفات الشیعہ: حدیث8)

رجال الحدیث:

اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں

درایت الحدیث:

اس روایت کو شیخ کلینی اور صدوق دونوں نے نقل کیا۔ شیخ صدوق کی سند صحیح ہے۔ یہ حدیث حکم قرآنی کے بھی عین مطابق ہے "انّ اکرمکم عنداللہ اتقاکم"، لہذا متن اور سند دونوں اعتبار سے یہ درجۂ اعتبار پر فائز ہے۔

فوائد الحدیث:

کسی بھی نسل کو برتری حاصل نہیں ہے، معیار خون اور نسل نہیں بلکہ تقوی اور پرھیزگاری ہے۔ مومن مومن کا کفو ہے، لہذا کوئی بھی مومن کسی بھی مومنہ سے شادی کر سکتا ہے، نسلی برتری اور تفاخر کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔

سادات کا احترام امّتی اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ان کو خاندان عصمت سے نسبت ہے۔ لیکن سادات کو تفاخر کا اظہار نہیں کرنا چاھئے اور نہ ہی دیگر نسلوں کو پست سمجھنا چاھئے، بلکہ اس نسبت کی وجہ سے ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سادات کو تو تقوی اور پرھیزگاری میں باقی سب سے افضل ہونا چاھئے تب جا کر وہ اپنے آپ کو فخریہ سادات قرار دے سکتے ہیں۔

یہ نسبت روز محشر کسی قسم کا فائدہ نہیں دے سکتی۔ اور یاد رہے کہ نبی(ص) سے نسب جوڑنے والے وہاں ہوں اور ان کے نامۂ اعمال سبک ہوں اور حقوق الناس کی رعایت نہ کرتے ہوں تو یقینا یہ لوگ کن کو شرمندہ کریں گے؟

اللہ تعالی ہم سب کی ہدایت کرے۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

2 comments:

  1. یہ 1400 سال پرانا مغالطہ ہے، سب کی برابری کا یہ مغالطہ تب ڈالا گیا جب بنو ہاشم ؑ کے گھر میں نبوت اور خلافت دونوں کو رہنے سے روک دیا گیا تھا۔ سب برابر کیسے ہو سکتے ہیں؟؟ ٹھنڈے دل سے پڑھ لیجئے۔
    قرانِ کریم نے ایک کلیہ دیا ہے کہ اس نے خاندان، نسل، قوم، خلق، علم، بعد میں آنے والوں کی وجہ سے، رزق، خاصیت و خصلت، کام کرنے کی صلاحیت (مجاہد و غیر مجاہد) اور جسم و جسمانیت بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔
    ــــــــــــــــــــــ
    خاندان، آل، نسل کی فضیلت
    ـــــــــــــــــــــــ
    إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ
    یقیناً اللہ نے آدم اور نوح اور آلِ ابراہیم اور آلِ عمران کو سب جہانوں میں سے پر چُن لیا (پسند کر لیا ہے)۔
    ٭٭٭
    ملاحظہ ہو ابراہیمؑ اور یعقوبؑ اپنے بیٹوں کو "اصطفیٰ" کر رہے (چن رہے ہیں کسی کو اعتراز نہیں) نبی ﷺ و علیؑ و بتولؑ پہ پابندیاں ہیں۔ حیف صد حیف
    وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ
    اور اسی بات کی تاکیدی نصیحت ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو کی اور یعقوب نے بھی (کہ) اے میرے پیارے بچو! یقیناً اللہ نے تمہارے لئے اس دین کو چُن لیا ہے۔
    ٭٭٭
    وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلاًّ فضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ
    اور اسماعیل، یسع، یونس اور لوط کو (بھی ہدایت دی) اور ان سب کو ہم نے تمام جہانوں پر فضیلت دی۔
    وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
    اور ان کے آباءو اجداد میں سے اور ان کی نسلوں میں سے اور ان کے بھائیوں میں سے (بھی بعض کو فضیلت بخشی) اور اُنہیں ہم نے چُن لیا اور صراطِ مستقیم کی طرف اُنہیں ہدایت دی۔
    ٭٭٭
    وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
    اور کون ہے جو ابراہیم (ع) کی ملت (و مذہب) سے روگردانی کرے سوا اس کے جو اپنے کو احمق بنائے اور ہم نے انہیں دنیا میں منتخب کیا اور" آخرت میں بھی ان کا شمار نیکوکاروں میں ہوگا"۔
    ـــــــــــــــــــــ
    قوم
    ــــــــــــــــــــــ
    یہ آیت سورۃ بقرہ میں دو بار آئی
    يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ
    اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور یہ کہ میں نے تمہیں عالمین پر فضیلت دی۔
    ٭٭٭
    يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ
    اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا اور یہ بھی کہ تمہیں دنیا و جہان والوں پر فضیلت دی۔
    ٭٭٭
    وَهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ
    اس نے تمہیں سارے جہاں پر فضیلت دی ہے
    ـــــــــــــــ
    فضیلت کا معیار اگر آخرت ہو تو "ایک نسل" کو جنت میں جاتے ہوئے بھی دکھاتا ہوں۔ آخر میں دیکھیئے۔
    آخرت
    ـــــــــــــــ
    انظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلاً
    (دیکھو) ہم نے (یہاں) کس طرح بعض لوگوں کو بعض پر فضیلت دی ہے اور آخرت تو درجات کے اعتبار سے بہت بڑی ہے اور فضیلت کے لحاظ سے بھی بہت بڑی ہے
    ــــــــــــــــ
    افضل کی فضیلت سے شیطان کو تکلیف
    ـــــــــــــــــ
    قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إَلاَّ قَلِيلاً
    اس (ابلیس) نے کہا مجھے بتا تو سہی کہ کیا یہ وہ (چیز) ہے جسے تُو نے مجھ پر فضیلت دی ہے؟ اگر تُو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے تو میں ضرور اس کی نسلوں کو ہلاک کردوں گا سوائے چند ایک کے۔
    ــــــــــــــــــــ
    منتخب شدہ کا مخالف "احمق"
    ــــــــــــــــــــ
    وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
    اور کون ہے جو ابراہیم (ع) کی ملت (و مذہب) سے روگردانی کرے سوا اس کے جو اپنے کو احمق بنائے اور ہم نے انہیں دنیا میں منتخب کیا اور" آخرت میں بھی ان کا شمار نیکوکاروں میں ہوگا"۔
    ـــــــــــــــــ
    لوگوں کو عطا شدہ فضیلت کی اپنے لئے آرزو اور چاہت کی ممانعت
    ـــــــــــــــــ
    وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ اللّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ
    اور خبردار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچھ زیادہ دیا ہے اس کی تمنّا اور آرزو نہ کرنا۔

    ReplyDelete
  2. غور فرمایئے
    علامہ شیخ محمد حسین نجفی(معروف بہ ڈهکو) صاحب اپنی کتاب "احسن الفوائد فی شرح العقائد" ،جو اعتقادیہ شیخ صدوق علیہ رحمہ کی جامع شرح ہے، کے اکتالیسویں باب میں لکهتے ہیں:
    "(ساداتء کرام کے متعلق اعتقاد کا بیان)"
    1۔آل ء رسول ص کی محبت واجب اور لازم ہے-
    2۔ ذریت ء رسول ﷺ میں غیر معصوم بھی یقیناً شامل ہیں۔
    3۔ گناہگار سادات کی سیادت میں شک "لاابالی" لوگ کرتے ہیں۔
    4۔ عملِ بد کرنے سے سلسلہءِ نسب منقطع نہیں ہوتا۔
    5۔ سید (ذریتِ نبیﷺ) کو دیکھنا عبادت ہے۔
    6۔ سادات تائب ہو کر مرتے ہی۔
    7۔ سب مساوی کے دعویدار وں کے لئے لمحہء فکریہ اور تازیانہء عبرت بھی آخری سطریں پڑھیں۔
    ____________________________
    ☆یہ مذہبء جعفریہ کا مسلمہ نظریہ ہے اور بہت سے علمائے اہلسنت بهی ہمارے ہمخیال ہیں کہ اولادء علی ع اولادء نبی ص ہے-
    ☆آل ء رسول ص کی محبت واجب اور لازم ہے-(یہاں علامہ صاحب نے احادیث ء معصومین بیان کی ہیں)-
    ☆ایک اشتباہ کا ازالہ: اوپر ہم نے جو احادیث بیان کی ہیں ان میں بعض احادیث اگرچہ فقط ائمہء اهلبیت ع کے ساتھ خاص ہیں مگر اکثر احادیث ذریت ء رسول کو شامل ہیں جو یقیناً غیر معصوم ہیں- ان میں نیکو کار بهی ہیں اور بدکار بهی-مگر بعض کم توفیق اور کوتاہ اندیش حضرات یہ کہتے ہیں کہ گنہگار سادات کی تعظیم کا شرعاً کوئی حکم نہیں بلکہ بعض لا ابالی قسم کے لوگ تو ایسے گنہگار افراد کی سیادت میں بهی شک و شبہ کرنے لگتے ہیں اور اس سلسلہ میں حضرت نوح ع اور انکے ناخلف فرزند کا واقعہ بهی پیش کیا کرتے ہیں-
    اس توہمء فاسد کا جواب یہ ہے کہ اربابء بصیرت جانتے ہیں کہ عملء بد کرنے سے سلسلہء نسب منقطع نہیں ہوتا-(یہاں علامہ صاحب نوح ع کے بیٹے اور ابراہیم ع کی ذریت کے حوالے سے اپنے مدعا کو ثابت کرتے ہیں)- اسی طرح جنابء رسولء خدا کایہ فرمان بهی گنہگاروں کی سیادت اور انکی تعظیم و تکریم کے لزوم پر دلالت کرتا ہے "اکرموا اولادی الصالحین للہ، والطالحین لی، میری اولاد کی عزت کرو اگر نیکو کار ہوں تو خدا کے لئے اور اگر بدکار ہوں تو میرے لئے"-(بحار الانوا ج 1، جامع الاخبار)
    ☆امام رضا ع سے ارشاد "وسائل الشیعہ" میں مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا : "النظر الی ذریتنا عبادة -قلت،هل النظر الی الائمة عبادة او النظر الی جمیع ذریة النبی ص؟ فقال النظر الی جمیع ذریة النبی عبادة-ما لم یفارقوا منہاجہ-
    ہماری زریت کی طرف نگاہ کرنا عبادت ہے-راوی نے عرض کیا، کیا تمام اولادء رسول ص کی طرف دیکهنا عبادت ہے؟ فرمایا تمام زریتء رسول ص کی طرف دیکهنا عبادت ہے-جب تک وہ آنحضرت ص کے منہاج و مذہب سے خارج نہ ہو جائیں"-
    (غیر شیعہ سادات کے متعلق بھی غور کریں)
    ☆...مگر جو حضرات من حیث الاعتقاد مذہبء حق کے قائل ہیں ،ہاں عملی طور پر ان سے کچھ فروگذاشتیں ہو جاتی ہیں انکی تعظیم و تکریم بہر حال لازم ہے اور انکے حقوق کی رعایت واجب ہے ہے-ایسے حضرات کی حالت بلا تشبیہہ بد اعمال والدین جیسی ہے-جسطرح والدین اگرچہ غیر صالح ہوں مگر انکا احترام ملحوظ رکهنا لازم ہوتا ہے-یہی کیفیت غیر صالح سادات کی ہے کہ بوجہ انتساب الی النبی والائمہ بہر حال انکا احترام ملحوظ رکهنا واجب ہے-
    ☆صحیح النسب سادات تائب ہو کر مرتے ہیں-اس بارے میں سفینہء بحار ج 2 میں امام جعفر صادق کی روایت موجود ہے-
    ☆ آلء رسول ص پر صدقہ حرام ہے- خداوندءعالم نے سادات کی عظمت کے پیشءنظر انکو اس ذلت و رسوائی سے محفوظ رکها ہے-
    ☆اس امر میں سادات و غیرء سادات کے درمیان مساواتء مطلقہ کے قائل حصرات کے لئے لمحہء فکریہ اور تازیانہء عبرت موجود ہے بلکہ جس طرح بادشاہوں اور شہزادوں کے اصل مال سے حصص مقرر ہوتے ہیں اسی طرح سادات کےلئے بهی اصل مال کا 5واں حصہ مقرر کیا گیا ہے-
    *ختم کلام شیخ نجفی *
    ۔
    قران کی آیت جس میں اللہ کے نزدیک معیار تقویٰ کہا گیا ہے وہ ایک دوسری بات ہے کیونکہ کوئی شخص متقی ہے یا ریا کار اس کا فیصلہ ہم نہیں کر سکتے یہ اللہ کا اپنا علم اور فیصلہ ہے۔

    ReplyDelete