Friday, May 30, 2014

علمائے حق کے خلاف ایک سازش کا ازالہ


آجکل بعض دشمنان تشیّع دل کھول کر علمائے حقّہ کی توہین کرنے میں مشغول ہیں بالخصوص رہبر معظّم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کی۔ اس بغض و عناد کی وجہ فقط یہ ہے کہ یہ علماء ان کی کچھ مخصوص گمراہ کن باتوں کو نہیں مانتے اور مخالفت کرتے ہیں۔

حال ہی میں ایک شخص نے دو روایات کے غلط تراجم اور دیگر احادیث سے چشم پوشی کرتے ہوئے امام خامنہ ای پر تنقید کی ہے کہ ان کا ہاتھ شل ہے تو ان کے پیچھے نماز کیسے پڑھی جائے گی۔

انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے؛

وَ قَالَ الصَّادِقُ
 ع لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْقَيْدِ الْمُطْلَقِينَ وَ لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاء

امام صادق(ع): "قیدی آزاد لوگوں کی امامت نہ کرے اور فالج زدہ صحیح و سالم لوگوں کی امامت نہ کرائے۔"

من لا یحضرہ الفقیہ: ج1 ح1107

نیز یہ حدیث بھی ان لوگوں نے نقل کی؛

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ص لَا يَؤُمُّ الْمُقَيَّدُ الْمُطْلَقِينَ وَ لَا يَؤُمُّ صَاحِبُ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاءَ وَ لَا صَاحِبُ التَّيَمُّمِ الْمُتَوَضِّينَ وَ لَا يَؤُمُّ الْأَعْمَى فِي الصَّحْرَاءِ إِلَّا أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى الْقِبْلَة

امام صادق(ع) سے منقول ہے کہ امام علی(ع) نے فرمایا: "قیدی زاداد لوگوں کو، کوئی فالج کا مریض تندرست لوگوں کو اور کوئی تیمّم والا باوضو لوگوں کو، اور اندھا بیابان میں جماعت نہ کرائے مگر یہ کہ اس کو قبلہ رخ کر دیا جائے۔"

کافی: ج3 ص376

ان احادیث کے مصداق پر مدلّل گفتگو کرنے سے پہلے ہم ان کی ہیرا پھیری کی طرف اشارہ کرنا چاھیں گے۔ انہوں نے ترجمہ میں لفظ "مفلوج" کا استعمال کیا ہے، عربی کے مطابق تو اس میں حرج نہیں کیونکہ عربی میں "مفلوج" فالج زدہ کو ہی کہا جاتا ہے۔ لیکن اردو میں یہ لفظ کسی معذور کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وہ شخص فالج کا شکار نہ بھی ہو۔ اگر حدیث کا اصل مصداق دیکھیں تو یہ کسی فالج زدہ شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کر رہا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فالج زدہ شخص افعال نماز ادا کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ نہ سجود میں ساتوں اعضائے سجدہ کو زمین پر رکھ سکتا ہے اور نہ رکوع کر سکتا ہے۔

حدیث میں "صاحب الفالج" کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا لغوی مطلب کوئی ایسا شخص ہے جو فالج کا مریض ہو۔ فالج کا اٹیک کبھی مکمّل جسم پر ہوتا ہے اور کبھی آدھے جسم پر۔ ان مدلّسین نے بہت خوبصورتی سے "صاحب الفالج" کی جگہ پر "مفلوج" کا لفط استعمال کیا ہے اور لفظ مفلوج کو معذور کے مترادف پیش کیا ہے جبکہ "معذور" "مفلوج" کا مترادف ہرگز نہیں ہے۔

اب یہاں پر لفظ "مفلوج" استعمال کر کے آیت اللہ خامنہ ای پر اٹیک کیا جا رہا ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای فالج کا شکار نہیں ہیں۔ ان کا ہاتھ ایک بم دھماکے میں تھوڑا شل ہوا، لیکن اس کے باوجود بھی آپ مکمّل طور پر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ سجدہ میں تمام اعضائے سجدہ زمین پر رکھتے ہیں اور صحتمند شخص کی طرح رکوع بھی کرتے ہیں اور قنوت میں ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں۔ البتہ اس بم دھماکے کی وجہ سے قنوت میں ہاتھ مکمّل نہیں اٹھا پاتے۔ یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ یہ لوگ کسی کی مخالفت میں کس حد تک جا سکتے ہیں اور جھوٹ اور مکرو فریب سے کام لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

قیدی کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق بھی علماء نے یہی کہا ہے کہ اس سے مراد وہ قیدی ہے جو زنجیروں میں جکڑا ہو جس کی وجہ سے وہ درست انداز میں نماز کے افعال انجام نہ دے سکے۔

اب ہم ان احادیث کے متن کی طرف آتے ہیں۔ بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چند لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔

1) قیدی
2) فالج زدہ شخص
3) کسی عذر کی وجہ سے تیمّم کرنے والا
4) اندھا

لیکن ہم دیگر احادیث میں دیکھتے ہیں کہ ان مخصوص لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت بھی آئی ہے۔ مثلا قیدی یا غلام کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت کے بارے میں درج ذیل احادیث ہیں؛

عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: قُلْتُ لَه الصَّلَاةُ خَلْفَ الْعَبْدِ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهِ إِذَا كَانَ فَقِيهاً وَ لَمْ يَكُنْ هُنَاكَ أَفْقَهُ مِنْهُ الْحَدِيثَ.

زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر(ع) سے غلام کی اقتداء کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: جب وہ فقیہ ہو اور وہاں اس سے زیادہ بڑا کوئی فقیہ نہ ہو تو پھر جائز ہے۔

کافی: ج3 ص375

َعنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَحَدِهِمَا ع أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْعَبْدِ يَؤُمُّ الْقَوْمَ إِذَا رَضُوا بِهِ وَ كَانَ أَكْثَرَهُمْ قُرْآناً قَالَ لَا بَأْسَ بِهِ 

محمد بن مسلم نے امام باقر یا امام صادق(ع) میں سے کسی سے پوچھا کہ آیا غلام لوگوں کو نماز پڑھا سکتا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ کوئی مضائقہ نہیں۔

تہذیب الاحکام: ج3 ص29

پس ان روایات میں جواز بیان ہوا ہے، اور جو حدیث ان مدلّسین نے بیان کی ہے اس میں غلام یا قیدی کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرنے کو کراہت پر حمل کریں گے یعنی ان کے پیچھے نماز جائز تو ہے لیکن مکروہ ہے۔ یا ہم یوں کہیں گے کہ ان قیدیوں کے پیچھے نماز پڑھنی منع ہے جو زنجیر یا رسّی میں بندھے ہوں جس کی وجہ سے وہ افعال نماز انجام دینے پر قادر نہ ہوں۔

اب ہم تیمّم کرنے والے شخص کے پیچھے امامت پر بات کرتے ہیں۔ مدلّسین کی پیش کردہ روایت کے مطابق تیمّم کرنے والے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا حرام ہے، اور یہی ان کا مطلب ہے، لیکن یہ سب احادیث سے نابلد ہونے کی وجہ سے ہے، یا وہ ان احادیث کے بارے میں جانتے ہیں لیکن عوام کو دھوکہ دینے کے لئے چھپاتے ہیں۔ ہم یہاں وہ احادیث پیش کرتے ہیں جن میں وضو کرنے والوں کا تیمّم کرنے والوں کے پیچھے نماز پڑھنے کا جواز ہے؛

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع عَنْ رَجُلٍ أَجْنَبَ ثُمَّ تَيَمَّمَ فَأَمَّنَا وَ نَحْنُ طَهُورٌ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهِ


عبداللہ بکیر کہتےہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جو مجنب ہوا تھا لیکن (پانی نہ ملنے کی وجہ سے) تیمّم کیا اور پھر ہمیں نماز پڑھائی جبکہ ہم نے وضو کیا ہوا تھا۔ آپ(ع) نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔

تہذیب الاحکام: ج3 ص167

عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فِي الرَّجُلِ يُجْنِبُ وَ لَيْسَ مَعَهُ مَاءٌ وَ هُوَ إِمَامُ الْقَوْمِ قَالَ نَعَمْ يَتَيَمَّمُ وَ يَؤُمُّهُم


امام صادق(ع) سے پوچھا گیا اس شخص کے بارے میں جو ایک قوم کا پیشنماز ہے اور جنب ہو گیا، مگر اس کے پاس غسل کے لئے پانی نہیں۔ تو آپ(ع) نے فرمایا کہ وہ تیمّم کرے اور لوگوں کو نماز پڑھائے۔

تہذیب الاحکام: ج3 ص167

یہاں پر بھی یہ ثابت ہوا کہ وضو کرنے والوں کے لئے تیمّم کرنے والے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں جو منع آیا ہے ہم اس کو کراہت پر محمول کریں گے، یعنی یہ جائز تو ہے لیکن مکروہ ہے۔ اور علماء کرام نے بھی یہی فرمایا ہے جیسا کہ شیخ حر عاملی اپنی تالیف "وسائل الشیعہ" میں ان روایات کو نقل کیا اور اس باب کا نام رکھا: بَابُ جَوَازِ اقْتِدَاءِ الْمُتَوَضِّئِ بِالْمُتَيَمِّمِ عَلَى كَرَاهِيَة ۔۔۔۔۔ یعنی وضو والوں کا تیمّم والوں کے پیچھے نماز کراہت کے ساتھ پڑھنے کا باب

اب ہم اندھے کے پیچھے نماز پڑھنے کی طرف آتے ہیں۔

امام صادق(ع): اگر اندھا آدمی لوگون کو نماز پڑھائے تومضائقہ نہیں ہے، اگرچہ یہی مقتدی اسے قبلہ رخ کریں۔ (تہذیب الاحکام)

امام باقر و امام صادق(ع): جب مقتدی اندھے آدمی کو پسند کریں اور وہ ان سے زیادہ قاری اور فقیہ ہو تو وہ نماز باجماعت پڑھا سکتا ہے۔ (من لا یحضرہ الفقیہ)

پس یہاں پر بھی یہ ثابت ہوا کہ اندھے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، اور مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں جو منع آیا ہے وہ کراہت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی جائز ہے لیکن مکروہ ہے۔

پس مدلّسین کی پیش کردہ روایت میں قیدی، تیمّم والے، فالج زدہ اور اندھے کے پیچھے نماز پڑھنا منع نہیں ہے بشرطیکہ وہ نماز کے افعال کو درست انجام دے سکیں، بلکہ وہ روایات مکروہ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اسی لئے شیخ حر عاملی نے مدلّسین کی روایات پر باب باندھا ہے؛

بَابُ كَرَاهَةِ إِمَامَةِ الْمُقَيَّدِ الْمُطْلَقِينَ وَ صَاحِبِ الْفَالِجِ الْأَصِحَّاء

یعنی قیدی کا آزاد لوگوں کو اور فالج زدہ کا صحیح و سالم کو امامت کرانے میں کراہت کا باب۔

پس بالفرض ہم رہبر کبیر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سیّد علی خامنہ ای کو فالج زدہ بھی مان لیں تو بھی یہ احادیث مکروہ ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔

معصومین(ع) کے نام پر معصومین(ع) کے اقوال کو تروڑ مروڑ کر آدھی بات پیش کر کے مومنین کے دلوں میں شکوک پیدا کرنے والوں پر ہم لعنت بھیجتے ہیں۔

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

No comments:

Post a Comment