اسلام کی خوبصورت تعلیمات میں سے ایک بچّوں کی تکریم اور احترام کا حکم ہے، تاکہ ایسے لوگ مستقبل کے لئے پروان چڑھیں جن کی عزّت نفس موجود ہو، اور سالم و صالح بدن اور روح کے ساتھ معاشرے کی تشکیل نو کریں۔ اسی لئے رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے؛
اکرمو اولادکم واحسنو آدابکم
یعنی اپنی اولاد کی تکریم کرو اور بہترین آداب کے ساتھ ان کے ساتھ معاشرت کرو
اگر بچوں کی تکریم اور احترام کیا جائے تو وہ صاحب فضل اور شرافت ہوں گے، اور وہ دوسروں کی تکریم کرنا جانیں گے، لیکن اگر ان کی تحقیر یا اہانت کی جائے تو ان کے فضل کی نشوونما متوقّف ہو جائے گی۔ حضرت ختمی مرتب(ص) فرماتے ہیں؛
اذا سمّیتم الولد فاکرموہ واوسعوا لہ فی المجالس ولا تقبّحو لہ وجھا
"جب اپنی اولاد کا نام لو تو اس کی تکریم کرو، اور ان کے لئے بیٹھنے کی جگہ قرار دو (اس کا احترام کرو) اور اس کے ساتھ بدخلقی سے پیش نہ آؤ۔"
رسول اللہ(ص) کی زندگی میں بھی ہمیں ملتا ہے کہ آپ بچوں کی تکریم کا خاص خیال رکھتے تھے، جب آپ کی خدمت میں کوئی بچہ ولادت کے بعد نام رکھوانے کے لئے پیش کیا جاتا تو آپ فورا اس کو گود میں لے لیتے، کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بچّہ نے آپ کی گود میں ہی کپڑے خراب کر دیئے، آس پاس کے لوگ غصّے سے بچے پر چیختے لیکن رسول اللہ(ص) ان کو منع کرتے۔
ایک حدیث ہمیں یوں ملتی ہے؛
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ص بِالنَّاسِ الظُّهْرَ فَخَفَّفَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأَخِيرَتَيْنِ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ لَهُ النَّاسُ هَلْ حَدَثَ فِي الصَّلَاةِ حَدَثٌ قَالَ وَ مَا ذَاكَ قَالُوا خَفَّفْتَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأَخِيرَتَيْنِ فَقَالَ لَهُمْ أَمَا سَمِعْتُمْ صُرَاخَ الصَّبِي
عبداللہ ابن سنان امام صادق(ع) سے نقل کرتے ہیں، آپ(ع) نے فرمایا: "رسول اللہ(ص) ایک دفعہ نماز ظہر لوگوں کے ساتھ (جماعت میں) پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ناگہان آخری دو رکعتوں کو مختصر پڑھا (مستحبات کو چھوڑ کر)۔ جب آپ فارغ ہوئے تو لوگوں نے نے پوچھا کہ آیا نماز میں کچھ ہو گیا؟ تو آپ(ص) نے پوچھا کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے آخری رکعتوں کو بہت مختصر پڑھا۔ تو آپ(ص) فرماتے ہیں: مگر تم لوگوں نے بچّے کی رونے کی آواز نہیں سنی؟
(کافی: ج6 ص48)
مذکورہ حدیث کی سند صحیح ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسول(ص) بچوں کی تکالیف اور ان کی ضروریات کا کتنا خیال رکھتے تھے۔
نقل کیا گیا ہے کہ رسول(ص) عملی طور پر بھی بچوں کی تکریم کرتے تھے۔ جب کہیں روانہ ہوتے تو راستے میں لوگوں کے بچّے آپ کے احترام میں کھڑے ہو جاتے۔ آپ ان بچوں کو اٹھاتے، کسی کو گود میں لیتے اور کسی کو اپنی پشت پر چڑھاتے اور اپنے اصحاب سے فرماتے کہ بچّوں کو گود میں لیا کرو اور اپنی دوش پر چڑھایا کرو۔۔۔ بچّے اس بات سے بہت خوش ہوتے اور ان یادوں کو کبھی فراموش نہ کرتے، جب بڑے ہونے کے بعد کبھی جمع ہوتے تو ایک دوسرے کو یہ بات سنا کر فخر کرتے۔ (المحجۃ البیضاء: ج3 ص367)
آپ(ص) کی عادت تھی کہ جب بھی کسی بچّے سے ملتے اس کو سب سے پہلے خود سلام کرتے تاکہ اس کی تکریم ہو اور تاکید کرتے کہ ان کی اس سنّت پر عمل کیا جائے۔ چنانچہ مروی ہے؛
إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص مَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ
رسول اللہ(ص) کچھ بچوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے ان کو سلام کیا۔ (مکارم الاخلاق: ص16)
شیخ صدوق کی امالی میں ایک حدیث ہے جس میں رسول اللہ(ص) فرماتے ہیں کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کو میں مرتے دم تک ترک نہیں کروں گا تاکہ میرے بعد یہ میری سنّت بن جائیں (جن پر لوگ عمل کریں)۔ آپ(ص) کے فرمان کے مطابق ان میں سے ایک چھوٹوں پر سلام ہے۔ (امالی صدوق ص44، بحارالانوار: ج16ص215)
جبکہ ہمارے ہاں دیکھا گیا ہے کہ بڑے اپنے بچّوں کو سلام نہ کرنے پر ٹوکتے ہیں۔ اگر ان کی عادت سلام میں پہل کرنا نہیں ہے تو کسی بڑے کے سلام کرنے سے خود شرمندہ ہو جائیں گے اور اپنی سلام نہ کرنے کی عادت کو ترک کر دیں گے۔ بعض منچلے تو ایسے ہیں کہ کسی چھوٹے کے سلام نہ کرنے پر اس کو "وعلیکم السلام" کہہ کر شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کیا ہم اپنے رسول(ص) کی ان سنّتوں پر عمل کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچّوں اور دوسرے بچوں کی اس طرح تکریم کرتے ہیں؟ کیا ہم ان کو گود میں اٹھا کر پیار کرتے ہیں؟
جب بچوں کے ساتھ تکریم کرنے پر اتنی اہمیت ہے تو ہم میں جو عمر، علم اور کردار کے لحاظ سے بڑے ہیں ان کی تکریم کی اہمیت کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔
ان سنّتوں پر عمل کیجئے تاکہ ہمارا معاشرہ اخلاقی لحاظ سے بہترین معاشرہ ہو۔
وما علینا الا البلاغ
خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
No comments:
Post a Comment