Friday, May 30, 2014

شیخ صدوق کی لکھی ہوئی کتاب "مدینۃ العلم" کا وجود


"مدینۃ العلم" ایک گمشدہ کتاب

س) کہا جاتا ہے کہ شیخ صدوق نے "من لایحضرہ الفقیہ" سے بھی ضخیم کتاب لکھی تھی، لیکن یہ ناپید ہو گئی۔ علامہ مجلسی نے اس کتاب کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن نہیں ملی۔ اس کی حقیقت سے آگاہ کریں نیز کیا وجوہات تھیں جو یہ کتاب ناپید ہوئی؟

ج) یہ واقعی ایک معمّہ ہے، اگر یہ کتاب اس قدر اہم ہوتی تو اس کا ناپدید ہونا سمجھ سے باہر ہے۔ کتب اربعہ اوائل سے لے کر اب تک شیعوں کے درمیان تواتر کے ساتھ موجود رہی، آخر کیا وجہ ہے کہ اتنی عظیم کتاب سے بے اعتنائی برتی گئی؟ آخر چند نسخے چند لوگوں کے پاس ہی کیوں بچے تھے؟ تاریخ میں ہمیں شیخ طوسی کے کتابخانے کے جلائے جانے کا ذکر ملتا ہے، لیکن سید مرتضی کا کتابخانہ پھر بھی بچا تھا جو شیخ طوسی سے بھی بڑا تھا، اور اس عظیم سرمائے سے شیخ طوسی بھی استفادہ کرتے رہے۔

اس کتاب "مدینۃ العلم" کا تذکرہ خود شیخ صدوق علیہ الرّحمہ نے عیون اخبار الرضا میں کیا ہے،شیخ طوسی اپنی کتاب "فہرست مصنّفات علمای امامیہ" میں شیخ صدوق کی کتب میں سے چالیس کتب کا نام لیتے ہیں جن میں سے ایک "مدینۃ العلم" ہے، مزید تصریح کرتے ہیں کہ یہ کتب حجم میں "من لا یحضرہ الفقہ" سے بھی بڑا تھا۔ شیخ نجاشی بھی اپنی کتاب میں شیخ صدوق کی 194 کتب کے نام لیتے ہیں جن میں سے آٹھویں "مدینۃ العلم" ہے۔

ابن شہر آشوب نے معالم العلماء میں ادّعا کیا ہے کہ مدینۃ العلم دس جلدوں پر مشتمل تھا، درحالیکہ من لا یحضرہ الفقیہ چار جلدوں میں ہے۔ شہید اوّل اپنی کتاب "ذکری" میں لکھتے ہیں کہ من لا یحضرہ الفقیہ اور مدینۃ العلم دونوں کو ملا لیا جائے تو یہ کافی کے برابر ہے۔

یہ کتاب شیخ بہائی کے والد حسین بن عبدالصمد کے پاس تھی اور انہوں نے کتب معتبرہ میں اس کا شمار کیا ہے، بلکہ قرین قیاس یہ ہے کہ ان کے بیٹے شیخ بہائی کے پاس بھی تھی۔ اسی زمانے میں ایک اور عالم سید حسین بن حیدر کرکی اپنے شاگرد کو دیگر کتب حدیث کا اجازہ دیتے ہیں تو کتاب مدینۃ العلم کا بھی دیتے ہیں۔

لیکن جب علامہ مجلسی کا دور آتا ہے تو یہ کتاب ایک دم نایاب ہو جاتی ہے، علامہ مجلسی نے کافی تگ و دو کی لیکن یہ کتاب ان کو نہیں ملی، کہا جاتا ہے کہ ان کے ایک حریف سید محمد میرلوحی اصفہانی کے پاس یہ کتاب موجود تھی۔ علامہ مجلسی نے ان سے درخواست کی کہ یہ کتاب ان کو استنساخ کے لئے دی جائے تاکہ وہ اس کتاب کو اپنے مجموعے بحارالانوار میں شامل کر سکیں۔ کہا جاتا ہے کہ سید محمد میرلوحی نے حسد کی وجہ سے یہ کتاب ان کو نہیں دی۔ بعد میں جب افغانیوں نے ایران پر حمل کیا اور اصفہان کو غارت کیا تو یہ کتاب بھی ضائع ہو گئی۔

ان کے بعد قاجاری دور میں ایک اور عالم سید محمد باقر شفتی نے اس کتاب کو حاصل کرنے کی بہت کوشش کی۔ کہا جاتا ہے کہ کافی پیسہ خرچ کر کے انہوں نے یمن میں اس کتاب کو ڈھونڈوایا لیکن یہ کتاب ان کو یمن سے بھی نہ ملی۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کتاب اچانک سے کیسے غائب ہو گئی؟ اگر وہ اتنی عظیم کتاب تھی تو ہمارے علماء نے طوسی سے لے کر شیخ بہائی تک اس کتاب سے نقل کیوں نہ کیا؟ ابن ادریس حلّی و سید ابن طاؤوس و علامہ حلّی و شہیدین اوّل و ثانی نے بہت سی فقہی کتب لکھیں جن میں کتب اربعہ سے کثرت سے نقل کر کے ان سے استنباط کیا۔ لیکن ہمیں مدینۃ العلم سے بہت کم روایات ملتی ہیں۔ ایک فاضل حسین کریمی کی تحقیق کے مطابق تمام کتب فقہ، رجال و حدیث و ادعیہ کو گھنگالنے کے بعد فقط 20 روایات ملتی ہیں جو مدینۃ العلم سے لی گئی تھیں۔ یہ نہایت عجیب سی بات ہے لیکن ساتھ ساتھ ہمیں کسی نتیجے تک پہنچنے میں مدد کرتی ہے۔

غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مدینۃ العلم ایک حدیث کا مجموعہ ضرور تھا لیکن اس میں بہت کم ایسی احادیث تھیں جو کتب اربعہ میں نہ ہوں۔ جس طرح اصحاب کی لکھی ہوئی اصول اربعماہ کتب اربعہ کے بعد ناپید ہو گئيں کیونکہ ساری احادیث ان کتب میں سما گئی تھیں، اسی طرح سے مدینۃ العلم کو بھی ساتھ رکھنے اور نسخہ کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہی تھی۔ لہذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مدینۃ العلم کے ناپید ہونے سے بہت بڑا حدیث کا مجموعہ ناپید ہوا، کیونکہ اس میں روایات مشہور کتب کے مجموعے سے ہٹ کر نہیں تھیں اسی لئے علماء نے قرون وسطی کے بعد اس کی حفاظت کے معاملے میں تساہل سے کام لیا۔

واللہ اعلم بالصواب

خاکسار: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

No comments:

Post a Comment