Tuesday, January 21, 2014

بوہری اور آغا خانی کون ہیں؟ ایک مختصر تعارف

سوال: بوہری اور آغا خانیوں میں کیا فرق ہے؟ انکی تاریخ کیا ہے اور کیا بوہری اور آغا خانی مسلمان ہیں؟

جواب: بوہری اور آغا خانی دونوں کی اصل ایک ہے۔ امام جعفر صادق(ع) کے کئی بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے حضرت اسماعیل تھے۔ امام صادق(ع) کے زمانے میں ہی کچھ لوگوں نے تصوّر کرنا شروع کر دیا تھا کہ امام صادق(ع) کے بعد اسماعیل ہی امام ہوں گے۔ لیکن حضرت اسماعیل کی وفات امام صادق(ع) کی زندگی میں ہی ہو گئی، امام صادق(ع) بعض لوگوں کے اس عقیدے کو جانتے تھے کہ اسماعیل کو ہی وہ امام سمجھتے ہیں، امام(ع) نے اسماعیل کی وفات کے بعد اس کا جنازہ لوگوں کو دکھایا اور لوگوں کی معیت میں ہی ان کی تجہیز و تکفین کی کئی۔

جب امام صادق(ع) کی شہادت ہوئی تو ان کی وصیّت کے مطابق اکثر شیعوں نے امام کاظم(ع) کو امام مان لیا، لیکن ایک جماعت نے کہا کہ اسماعیل بڑے بیٹے تھے، اب وہ نہیں تو ان کی اولاد میں امامت رہنی چاھئے، یہ لوگ اسماعیلی کہلائے۔ کچھ لوگوں امام صادق(ع) کے ایک اور بیٹے عبداللہ افطح کو امام مانا، یہ لوگ فطحی کہلائے۔

جن لوگوں نے امام جعفر صادق(ع) کی شہادت کے بعد امامت کو حضرت اسماعیل کی نسل میں مان لیا تو آگے چل کر ایک وقت آیا جب ان اسماعیل کی اولاد میں سے ایک شخص مہدی کو مصر میں خلافت ملی جہاں اس نے خلافت فاطمی کی بنیاد رکھی۔ یہ خلفاء بہت شان و شوکت سے وہاں حکمرانی کرتے رہے، قاہرہ شہر اور جامعۃ الازھر کی بنیاد انہی اسماعیلی خلفاء نے رکھی۔ اور اس وقت تک یہ باعمل قسم کے شیعہ تھے لیکن اثنا عشری نہ تھے۔



ایک نسل میں ان کے ہاں خلافت پر جھگڑا ہوا، مستعلی اور نزار دو بھائی تھے، مستعلی کو خلافت ملی۔ لیکن لوگوں میں دو گروہ ہوئے، ایک نے مستعلی کو امام مان لیا اور ایک گروہ نے نزار کو مان لیا۔ مستعلی کو ماننے والوں کو مستعلیہ کہا جاتا ہے جو آج کل کے بوھرہ ہیں اور نزار کے ماننے والوں کو نزاریہ کہا جاتا ہے جو آجکل کے آغا خانی ہیں۔ لیکن چونکہ خلافت مستعلی کو ملی تو نزاری فرار ہو کر ایران آئے اور قزوین نامی شہر کا اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں کئی برس تک جاہ و حشم کے ساتھ انہوں نے حکمرانی کی۔ حسن بن صباح کے دور میں ان کو عروج حاصل ہوا اور ان کی فدائین کی تحریک بہت کامیاب ہوئی اور پوری سرزمین ایران میں اپنی دہشت بٹھا دی۔ بعد میں ان کا امام "حسن علی ذکرہ السّلام" آیا جس نے ظاہری شریعت ختم کردی اور صرف باطنی شریعت برقرار رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ آغا خانیوں کو فرقۂ باطنیہ بھی کہا جاتا ہے۔

آغا خانی ایک طویل عرصے تک ایران میں مقیم رہے، ان کے امام کو "آغا خان" کا لقب بھی ایران کے قاجاری حکمران نے دیا تھا۔ شاہ ایران نے آغا خان کو کرمان کے قریب "محلاّت" نامی جگہ پر ایک وسیع جاگیر بھی عطا کر رکھی تھی لیکن انگریزوں کی تحریک پر آغا خان اوّل نے ایرانی قاجاری سلطنت کے خلاف بغاوت کر دی لیکن جب اس کو شکست ہوئی تو بھاگ کر ہندوستان میں پہلے سندھ اور پھر بمبئی شفٹ ہوا۔ انگریزوں نے ان کو "سر" کا خطاب دیا اور بہت عزّت و تکریم کی۔

بوہریوں کی خلافت جب مصر میں ختم ہوئی تو انہوں نے ہندوستان و یمن کو اپنا مرکز بنالیا البتہ یہ لوگ باعمل مسلمان ہیں اور پابندی سے نماز وغیرہ پڑھتے ہیں۔

جہاں تک ان کے اسلام کا تعلّق ہے تو بوہریوں کے مسلمان ہونے میں کوئی شبہ نہیں جب تک کہ یہ کسی امام کو گالی نہ دیں۔ کہتے ہیں کہ ایک زمانے تک یہ امام موسی کاظم(ع) کو گالیاں دیتے تھے جو بقول ان کے امامت کو غصب کر بیٹھے (نعوذباللہ)۔ لیکن یہ روش انہوں نے چھوڑ دی تبھی آیت اللہ ابوالحسن اصفہانی کے دور میں ان کو نجف و کربلا زیارت کی اجازت دی گئی۔ وہاں موجود ضریحوں اور حرم کی تعمیر اور چاندی سونے میں بوہریوں نے کافی مدد کی۔


دوسری طرف آغاخانیوں کا اسلام اس لئے مشکوک ہے کیونکہ یہ ضروریات دین میں سے کئی چیزوں کے منکر ہیں۔ نماز کے بارے میں تو ہم نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ نماز سے انکار نہیں کرتے لیکن نماز کا طریقہ الگ ہے۔ جو چیز ان کے اسلام کو مشکوک بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ "حلول" کے عقیدے کو مانتے ہیں۔ ان کے مطابق اللہ کا نور علی(ع) میں حلول کر گیا اور علی(ع) کا نور ان کے ہر امام میں آتا رہا، ان کے حساب سے پرنس کریم آغا خان اس وقت کا علی(ع) ہے، اور جب یہ لوگ "یاعلی مدد" کہتے ہیں تو ان کی مراد ہماری طرح مولا علی(ع) نہیں ہوتے بلکہ پرنس کریم آغا خان ہوتے ہیں۔

لیکن ہمارے لوگ خوش فہمی کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی سلام کے طور پر یاعلی مدد کہنا شروع کیا۔

آغا خانیوں میں ایک اور خرابی یہ ہے کہ وہ "معاد جسمانی" کے منکر ہیں یعنی ان کے نزدیک میدان حشر، پل صراط، جنّت و جہنّم کا کوئی ظاہری وجود نہیں بلکہ یہ کنایہ ہے۔ اور ان کا عقیدہ ہے کہ ہم اس جسم کے ساتھ حشر کے دن نہیں اٹھائے جائیں گے۔ "معاد جسمانی" ہماری ضروریات دین میں سے ہے اور جو اس کا قائل نہیں تو اس کے اسلام پر حرف آتا ہے۔

والسّلام

العبد: ابوزین الہاشمی

Wednesday, January 8, 2014

تشہد میں شہادت ثالثہ اور آیت اللہ صادق شیرازی

* شہادتِ ثالثہ در تشہد اور آیت اللہ صادق شیرازی (رح) *

سوال: تمام مستند اور مشہور مراجع نے تشہد میں شہادت ثالثہ کی اجازت نہیں دی۔ لیکن آجکل بعض لوگ آیت اللہ صادق شیرازی کا نام لے کر تشہد میں شہادت ثالثہ کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں، اس میں کتنی صداقت ہے؟

جواب: آیت اللہ صادق شیرازی کی توضیح المسائل میں تشہد میں شہادت ثالثہ کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ آپ توضیح المسائل میں مسئلہ نمبر 1109 میں دو شہادتوںوالا تشہد نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ احتیاط واجب یہ ہے کہ اس تشہد میں مزید کوئی اضافہ نہ کیا جائے۔


علاوہ ازیں آپ اپنی آفیشل ویب سائٹ میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں؛ "آنچه از روایات شریفه وارده در کتاب «وسائل الشیعة: کتاب الصلاة، ابواب افعال الصلاة، وابواب التشهد، وابواب التسلیم: ج5 و6» استفاده می شود آن است که نمازی که شیعیان تا به امروز می خوانند در کیفیت، طبق نمازی است که رسول خدا و اهل بیت آن حضرت (که درود خدا بر آنان باد) می خواندند، حتی در شهادتین و صلوات در تشهد و سه سلام در تسلیم آن، و فقهاء جامع الشرائط شیعه آن را در رساله های توضیح المسائل بیان کرده اند".

یعنی: "وسائل الشیعہ: کتاب الصلاہ، ابواب افعال الصلاہ، و ابواب التشھد، وابواب التسلیم: ج5 اور 6 میں جو کچھ روایات شریفہ میں وارد ہوا ہے اس سے یہ مستفید ہوتا ہے کہ وہ نماز جو شیعہ آج کے زمانے تک پڑھتے آئے ہیں کیفیت کے لحاظ سے وہی نماز ہے جو رسول اللہ(ص) اور ان کے اہل بیت(ع) پڑھا کرتے تھے جیسے تشھد کی دو شہادتوں میں (اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمدا رسول اللہ) اور سلام نماز کی تین سلاموں میں، جن کو جامع الشرائط شیعہ فقہاء نے اپنی توضیح المسائل میں بیان کیا ہے"۔


آیت اللہ صادق الشیرازی کی اس عبارت سے درج ذیل باتیں ظاہر ہوتی ہیں:

1) کہ آپ کی نگاہ میں بھی معصومین(ع) اور ان کے دور میں شیعہ جو تشھد پڑھتے تھے اس میں دو شہادتیں ہی ہوا کرتی تھیں

2) صدر اسلام سے لے کر آج تک شیعیت کا شعار تشھد میں دو شہادتین رہی ہیں اور تین سلام رہے ہیں اور یہی وہ نماز ہے جو معصومین(ع) منجملہ رسول اللہ(ص) پڑھتے رہے، پس تشہد میں شہادت ثالثہ کا اضافہ آجکل کے دور کا تحفہ ہے۔

آپ کے اس جواب کے بعد مزید کسی کلام کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ ان کے مطابق بھی ہمیشہ سے لے کر اب تک شیعیت کے درمیان یہی دو شہادتوں والا تشہد رائج رہا ہے اور معصومین(ع) بھی ہمیشہ اسی تشہد کو پڑھتے رہے۔ اگر ہم بالفرض مان بھی لیں کہ انہوں نے اس کی اجازت دی بھی ہے تو یہ فقط جائز ہوا نا؟ اس پر اس قدر تاکید کرنا اور بعض صورتوں میں اس کو واجب کہنا اور بعض صورتوں میں کہنا کہ جو اس کو ترک کرے وہ حرامی ہے، یہ سب کہاں سے ٹھیک ہو گیا؟ اگر انہوں نے جائز قرار دیا تو باقی علماء و فقہاء کے بارے میں ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے "عقیدے" کی حفاظت نہیں کی؟ معاصر مراجع میں ایک ہی مجتہد ایسے ہوں گے جو اس کی اجازت دیتے ہوں گے، باقی سب کیا شیعوں کے دشمن ہیں؟ اگر اس طرح سے کہنا ہی ہے تو دیگر مراجع اذان میں شہادت ثالثہ چھوڑنے کو جائز کہتے ہیں، تو کیا کوئی تاکید کرنے لگ جائے کہ اذان میں شہادت ثالثہ ضرور چھوڑو؟ تب آپ لوگوں کے دلوں پر بجلیاں گریں گی

حقیقت تو یہ ہے کہ شہادت ثالثہ کی تشہد میں تاکید ایک شرپسندی کے سوا کچھ نہیں، آيت اللہ صادق شیرازی کی رائے کو ایک فقہی رائے ہی سمجھنا چاھئے تھا، لیکن ان کا نام لے کر شہادت ثالثہ کی ترویج کیسے ٹھیک ہے؟ یہ ہمارے پاکستان کے مخصوص علاقے کے شرپسند ہیں جو اس پر اتنی تاکید کرتے ہیں کہ جیسے سارا ایمان یہی ہے کہ تشہد میں یہ شہادت پڑھی جائے اور جو نہ پڑھے وہ شیعہ ہی نہیں۔ ہم اس شدّت پسندی کے مخالف ہیں، ایک مجتہد کا فتوی ہو تو دوسری طرف سینکڑوں مراجع کے فتوی اس کے عدم جواز پر ہیں

ہمارا موقف صرف یہ ہے کہ یہ فقہی مسئلہ ہے اس کے پڑھنے پر تاکید کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ جنہوں نے اس کی اجازت دی انہوں نے اس کو نہ مستحب کہا اور نہ واجب، یہ فقط جائز ٹھہرا وہ بھی صرف آیت اللہ صادق شیرازی کی نظر میں۔ یہاں پاکستان میں جو لوگ اس کا پرچار کرتے ہیں وہ تقلید کے ہی قائل نہیں ہیں، صادق شیرازی کا نام استعمال ہی کیا جاتا ہے۔ صرف جائز ہے، تو اس پر تاکید واجب کی طرح کیوں؟

ہم نماز کو اسی طرح سے پڑھنے کے پابند ہیں جس طرح آئمہ(ع) نے پڑھی، ولایت کا پہلا تقاضا اطاعت ہے۔ ہمیں اپنے دینی امور میں معصومین(ع) کی اطاعت کرنی ہے، ہماری معتبر کتب و احادیث میں کہیں پر بھی کسی امام نے شہادت اس طرح نہیں پڑھی۔ لہذا وہ فتاوی جو صریحا معصومین(ع) کے مطابق ہوں صحیح ہیں اور جو فتاوے اس کے خلاف ہوں وہ خطائے اجتہادی ہے ۔ 

اس پر تاکید کرنا یا اسے بنیاد بنا کر شیعوں میں تفرقہ ڈالنا انتہائی مذموم فعل ہے جو بھی یہ کرتا ہے خدا ہمیں اس کے شر سے محفوظ رکھے آمین.


ابو زین الھاشمی

علماء کو فتوی دینے میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے

٭علماء کو فتوی دینے میں کن کن عوامل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ آیت اللہ العظمی سیّد محمد باقر درچہ ای مرحوم کی نگاہ میں٭

آیت اللہ العظمی سیّد محمد باقر درچہ ای قاجاری و پہلوی دور میں ایران کے ایک توانا مجتہد رہے ہیں۔ آپ میرزای شیرازی کے شاگرد رشید تھے اور اجتہاد کا ملکہ حاصل کرنے کے بعد اصفہان کو اپنا مستقر بنا لیا۔ آپ نے تگڑے شاگردوں کی تربیت کی جن میں سر فہرست آیت اللہ العظمی سیّد ابوالحسن اصفہانی، آیت اللہ العظمی سیّد حسین بروجردی و آیت اللہ العظمی سیّد حسن مدرّس جیسے نامی گرامی علماء تھے۔ آپ کا تمام علوم اسلامی میں تبحّر اپنی مثال آپ تھا اور آپ بطور روشن فکر معروف تھے۔ خالص اسلامی عقائد خصوصا توحید پر زور دیتے تھے جس کی وجہ سے آپ کے مخالفین میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ آپ کو شاہ ایران رضا خان پہلوی کے حکم پر علی الصبح حمّام میں شہید کیا گیا۔


اس مختصر تعارف کے بعد ہم ان کے افکار سے کچھ اقتباس پیش کرتے ہیں؛

"یہ مت بھولیں کہ آجکل کے دور میں بہت سے اعمال جو جائز سمجھے جاتے ہیں صدر اسلام میں ان کا کوئی اثر نہیں تھا، قدیم علماء ان کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور یہ بھی مت بھولیں کہ ان میں سے اکثر اعمال معاشرہ اور قوم کی عادات و رسومات سے متاثر ہیں۔ پہلے ان اعمال کو بہت معمولی سمجھا گیا اور اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ عادات معمول ہوتے گئے۔ امتداد زمانہ کی وجہ سے ان میں "زیادہ روی" ہوتی رہی یہاں تک کہ اب واضح خلاف شریعت ہے۔ لیکن اب چونکہ یہ اس قدر نفوذ کر چکا ہے، خود علماء بھی اس سے متاثر ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ مرحوم آقا دربندی نے وصیت کی تھی کہ ان کے خون سے تر کفن کو ان کے ہمراہ دفن کیا جائے جس پر انہوں نے قمہ زنی کی تھی۔ جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ میّت کے ساتھ ایک ذرّہ نجاست بھی دفن نہیں ہونا چاھئے، بلا شکّ و تردید خون گیارہ نجاسات میں سے ایک ہے لیکن مرحوم دربندی جو اپنے زمانے میں عوامی عقائد و اوہام کے زیر اثر تھے، اپنی علمیت اور شرعی قابلیت کو اس کے مطابق ڈھال لیا۔

البتہ آپ لوگوں کو یہ بات عجیب نہیں لگنی چاھئے، جب یونانی بت پرستوں کا فلسفہ مسلمانوں کے ہاتھ پہنچا تو انہوں نے کوشش کی کہ اس فلسفے کو شرع، احکام و عقائد اسلامی کے مطابق ڈھالا جائے۔ اور جب یہی فلسفہ عیسائیوں کے ہاتھ لگا تو انہوں نے کوشش کی کہ اس کو حضرت عیسی(ع) کے حواریوں کے اقوال کے مطابق ڈھالا جائے جبکہ یہ تمام حواری متقی، زاھد و عابد تھے اور فلسفہ و علوم یونانی سے ناواقف تھے۔۔۔ ان سب کی وجہ یہ ہے کہ ہم پہلے اپنے اطراف سے دین کو لیتے ہیں اور پھر عالم بنتے ہیں (یعنی عقائد پہلے بن جاتے ہیں اور تحقیق و تعلیم بعد میں کرتے ہیں)۔ بالفاظ دیگر علم کی تلاش سے پہلے، جب انسان کا ذہن بالکل خالی اور سادہ ہوتا ہے، اپنے والدین اور ماحول سے اپنے عقائد و دین کو تشکیل دیتا ہے۔ جب وہ تعلیم حاصل کرنے لگتا ہے تو پہلے سے نقش شدہ عقائد کے مطابق اپنا دین حاصل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء جو ایران کے عادات و اطوار و افکاری ماحول میں رہتے ہیں، ان رسومات و عقائد پر بات نہیں کر سکتے جو شرع کے خلاف ہیں لیکن لوگوں کے عقائد و افکار کے مطابق ہیں۔ اور شاید ان چیزوں کو وہ خلاف شرع بھی نہ سمجھیں کیونکہ وہ اسی محیط میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔

مثلا عزاداری امام حسین(ع) میں گریہ و زاری معصومین(ع) سے ثابت ہے، لیکن رفتہ رفتہ اس میں جدّت پیدا ہوتی گئی۔ خصوصا جب ترک اور ایرانی شیعہ ہوئے تو انہوں نے خونی ماتم کا اجراء کیا جو کہیں سے عقلی پیمانے کے مطابق نہیں، اس وجہ سے ہر چیز میں افراط و تفریط شروع ہو گئی، یہاں تک کہ منّت کے نام پر جسم میں سوراخ کر کے تالا باندھتے ہیں یا سلاخیں آر پار کرتے ہیں۔ کیا اس طرح سے خود کو اذیّت دینا عقل و شریعت کے خلاف نہیں؟"

(جایگاہ و اندیشہ ھای روحانی روشنفکر آزاد اندیش آیت اللہ سیّد محمد باقر درچہ ای)


ترجمہ و پیشکش: ابو زین الہاشمی

مقتل ابی مخنف کا اعتبار

٭مقتل ابو مخنف٭


جو لوگ واقعات کربلا کا مطالعہ رکھتے ہیں ان کے لئے ابو مخنف کا نام غیر مانوس نہیں ہے۔ ابو مخنف کا نام لوط بن یحیی تھا جو ایک مشہور تاریخ دان تھا۔ مؤرخین نے ابو مخنف لوط بن یحیی پر تاریخ میں بہت اعتماد کیا ہے۔ ابو مخنف ایک شیعہ مؤرخ تھا اور امام صادق(ع) کے اصحاب میں شمار ہوتا تھا، اس نے امام صادق(ع) سے روایات بھی نقل کی ہیں۔ شیخ نجاشی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ابو مخنف کوفہ میں مؤرّخین کے استاد ہیں اور سب کے لئے مورد اعتماد ہیں۔ انہوں نے کئی کتب لکھیں جن میں سب سے مشہور "مقتل الحسین" ہے، یہ ابتدائی معتبر مقاتل میں سے ہے۔


لیکن بدقسمتی سے اس وقت یہ کتاب ہمارے پاس مکمّل نہیں پہنچی۔ جو کـچھ بھی ہم تک پہنچا ہے وہ تاریخ طبری، تاریخ کامل و تاریخ دمشق و دیگر معتبر تاریخ کی کتب سے پہنچا ہے۔ امام طبری نے ابو مخنف پر بہت اعتماد کیا ہے اور مقتل الحسین سے حوادث کربلا لکھے۔ گویا ان قدیم مؤرخین کے پاس ابو مخنف کی مقتل الحسین موجود تھی۔ کچھ عرصہ پہلے تاریخ طبری میں سے ابو مخنف کی روایات کو جمع کر کے کتابی شکل میں قم سے چھپوایا گیا، لیکن یہ تمام مقتل الحسین نہیں ہے بلکہ اس کا ایک حصّہ ہے۔

لیکن ایک اور کتاب "مقتل ابی مخنف" کے نام سے گردش کر رہی ہے جو بمبئی، بعداد، نجف اور ایران سے متعدد دفعہ چھپی ہے۔ یہ جعلی مقتل بحارالانوار کی قدیم جلد نمبر 10 کے ساتھ ناصر الدّین شاہ قاجار کے دور میں چھپی بھی چھپی تھی۔ یہ ابو مخنف لوط بن یحیی کی تالیف ہرگز نہیں کیونکہ تاریخ طبری میں جو کچھ ابو مخنف سے نقل ہوا ہے وہ اس جعلی مقتل سے بہت مختلف ہے، علاوہ ازیں اس میں ایسی باتیں ہیں جن کا باطل ہونا عیاں ہے۔ علماء نے بھی اس مقتل پر اعتماد نہیں کیا۔

علامہ نوری طبرسی اپنی مشہور کتاب لؤلؤ و مرجان میں ص156 میں فرماتے ہیں: "ابو مخنف لوط بن یحیی بزرگ محدّثین و اہل سیر و تواریخ سے ہیں، ان کی مقتل انتہائی معتبر ہے جیسا کہ قدیم مشہور علماء اور ان کی تالیفات سے معلوم ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ اصل مقتل جو تمام عیب سے پاک ہو ہم تک نہیں پہنچی ہے۔ اس وقت وہ مقتل جس کی نسبت ابو مخنف سے دیتے ہیں، کئی منکرات اور مسلّمات اصول مذہب کے خلاف ہے اس لئے درجۂ اعتبار و اعتماد سے خارج ہے۔ جہاں یہ مقتل منفرد ہو ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس مقتل میں کئی کمی بیشی واضح نظر آتی ہے۔"

شیخ عباس قمّی نفس المہموم کے ابتدا میں فرماتے ہیں: "لوط بن یحیی ابو مخنف متوفای 157 ہجری، ایک معتبر مؤرخ ہے اور اس کی کتاب مقتل الحسین بھی علماء کے نزدیک معتبر اور مورد اعتماد ہے۔ لیکن یہ مقتل جو آج ہمارے ہاتھ ہے اور اس کی نسبت ابو مخنف سے دی جاتی ہے، یہ مورد اعتماد ابو مخنف کی نہیں اور نہ کسی اور معتبر مؤرخ کی تصنیف ہے۔" 

آیت اللہ صالحی نجف آبادی فرماتے ہیں کہ ہم نے اس مقتل، جس کو ابو مخنف سے منسوب کیا جاتا ہے، کا موازنہ تاریخ طبری سے کیا، اور ان دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق پایا۔ یہ جعلی مقتل کافی عرصہ پہلے فارسی میں ترجمے کے ساتھ چھپی ہے جس کے شروع میں مترجم ابو مخنف لوط بن یحیی کے احوال لکھتا ہے جس سے یہ لگتا ہے کہ واقعی یہ ابو مخنف کی مقتل ہے۔ یہ مقتل عام عوام کے ہاتھ میں پہنچتی ہے اور اہل منبر جو روایات پڑھنے میں کسی قسم کا تدبّر نہیں کرتے، ان کے لئے یہ نعمت سے کم نہیں اور وہ اس میں سے مطالب عوام میں شائع کرتے ہیں۔ اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ جعلی مقتل اردو میں بھی ترجمہ ہو چکی ہے جس کے شروع میں مترجم ٹائٹل کے ساتھ لکھتا ہے "قدیم ترین مقتل کی کتاب"۔

یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ فاضل دربندی نے "اسرار الشہادہ" میں اور سپہر نے "ناسخ التواریخ" میں اسی جعلی مقتل پر کافی انحصار کیا ہے۔ اسی لئے ان دونوں کتب میں جعلی مصائب و مقاتل بہت فراوان ہیں۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ابو مخنف کی روایات میں وہی معتبر ہیں جو تاریخ طبری سمیت دیگر قدیم تواریخ میں موجود ہے، اور اس وقت جو مقتل ابی مخنف گردش کر رہی ہے وہ مورد اعتماد نہیں۔


تحریر: ابوزین الہاشمی 
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

Tuesday, January 7, 2014

شہادت امام حسین(ع) پر معرفت کے ساتھ گریہ کرنا لازمی ہے

٭شہادت حسین(ع) پر معرفت کے ساتھ رونا چاھئے٭

ہم گریہ کے مخالف نہیں بلکہ اسے عبادت سمجھتے ہیں لہذا روئیے اور خوب روئیے لیکن یہ گریہ و بکا ان لوگوں کا گریہ و بکا ہو جن کو امام حسین(ع) کی صحیح معرفت ہے، جو ان اصول کا احترام کرنے کے لئے ہر وقت عملی طور پر تیار رہتے ہیں اور جن کے لئے امام حسین(ع) نے خونی کفن پہنا ھا ورنہ مصائب سن کر رو لینا کوئی بڑا کمال نہیں۔ یہ واقعات ہی اس نوعیت کے ہیں کہ ان کو سن کر ہم تو کیا غیروں کے بھی آنسو نکل آتے ہیں۔ واقعات شاھد ہیں کہ خود کوفی و شامی ظلم بھی کرتے جاتے تھے اور روتے بھی جاتے تھے۔

اب انصاف شرط ہے کہ اگر ہم شہادت حسین(ع) سے اس قدر متاثر ہوئے کہ چند آنسو بہا لئے کچھ رسمی ماتم کر لیا تو پھر ہم میں اور اغیار میں فرق کیا رہا؟ افسوس ہے کہ شیعوں کو بچپن سے ہی اس امر کا عادی بنا دیا جاتا ہے کہ وہ رونے کو ہی دین و دنیا کا مآل سمجھیں اگرچہ شہادت حسین(ع) کے دیگر اہم مقاصد اور اغراض پامال ہو جائیں۔


مصائب حسین(ع) پر رونے اور رلانے والی احادیث پر ہمارا ایمان ہے لیکن ان کا منشاء کسی لحاظ سے یہ نہیں ہے کہ شہادت کا مقصود بالذات اور اصل منشاء صرف گریہ و بکاء ہی ہے اور ذاکر و مولوی کو دوسرے مقاصد و اغراض سے کوئی ربط و تعلق ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کہ گریہ و بکا امام حسین(ع) کی شہادت عظمی کی اصلی غرض و غایت کی نشرو اشاعت اور پرچار کا ایک ذریعہ ہے جس کو ہم نے غلطی سے اصل مقصد سمجھ لیا ہے۔

ہم ہر سال محرم کا پہلا عشرہ یا پورا مہینہ یا اس سے زائد عرصہ تک واقعات کربلا کو یاد کر کے روتے ہیں اور رلاتے بھی ہیں، امام بارگاہوں کی آرائش و زیبائش بھی کرتے ہیں اور شربت، شیرینی، چائے، شیرمال وغیرہ جیسے رسوم پر بے دریغ روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ ذاکرین و واعظین کو بھاری بھرکم فیسیں بھی ادا کرتے ہیں لیکن انصاف سے بتائیے کہ ہم محمدی مشن اور حسینی مشن کا کون سا کام کرتے ہیں؟

ہمارے سارے کام یزیدی، ہمارے سارے افعال یزیدی، کیا ایسی حالت میں ہم کو دربار محمدی(ص) یا سرکار حسینی(ع) سے کسی انعام کی امید رکھنی چاھئے؟ محض رونے پیٹنے اور رسوم ظاہری ادا کرنے سے روح محمدی(ص) و روح حسینی(ع) کبھی خوش نہیں ہو سکتی جب تک حسینی مشن کی تکمیل نہ کریں۔


العبد: ابو زین الہاشمی

واہ واہ کلچر

٭واہ واہ کلچر٭

میں آپ سب کی توجہ ایک چیز کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، پورے ہندوستان میں بشمول موجودہ بھارت اور پاکستان، یہ رواج ہے کہ مجلس کے دوران ذاکرین کو داد ملتی ہے۔ نکتہ ہائے خوش کنندہ پر اس کو خوب واہ واہ اور خراج تحسین ملتی ہے اور نعرے بھی ہدیہ کئے جاتے ہیں۔ البتہ ایران و افغانستان و عراق و شام و لبنان و ترکی و دیگر عرب ممالک میں ایسا نہیں ہوتا جہاں سامعین بہت خاموشی اور احترام کے ساتھ مجلس و بیان سنتے ہیں۔


اس واہ واہ والے کلچر نے ہماری مجالس کی ہیئت ہی دل دی ہے، اور اس سے درج ذیل مسائل جنم لیتے ہیں:

1) واہ واہ ہونے اور شور و غل ہونے کو مجلس کی کامیابی کی دلیل تصوّر کیا جاتا ہے، مجلس میں جتنی واہ واہ ہو مجلس اتنی کامیاب ہے اور ذاکر اتنا اچھا ہے، اور جس مجلس میں واہ واہ کم ہو وہ مجلس کامیاب نہیں اور ذاکر اچھا نہیں

2) پہلے فیکٹر کی وجہ سے ذاکرین خود بھی داد کے طالب رہتے ہیں، اگر داد نہیں ملتی تو وہ یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ سامعین اس کو پسند نہیں کر رہے۔ بعض ذاکرین نے کچھ مخصوص لوگ رکھے ہیں جو سامعین کی صفوں میں بیٹھ کر واہ واہ کرتے ہیں اور مجلس کو کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں۔

3) پہلے دونوں عوامل کی وجہ سے ذاکر پھر ایسا موضوع منتخب کرتا ہے یا ایسے نکتے بیان کرتا ہے جس پر اس کو خوب داد ملے، یعنی عوامی امنگ کے مطابق گفتگو کرتا ہے تاکہ خوب داد ملے۔ اس روش سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ معیار مستند اقوال نہیں ہوتے بلکہ معیار عوام کی پذیرائی ہوتی ہے۔ اس سے وہ موضوعات رہ جاتے ہیں جن کی ضرورت اس معاشرے کو ہوتی ہے اور اکثر اوقات عوام کو پسند نہیں آتے۔

4) عوام میں بہت سے ایسے ہیں جو ان ذاکرین کو سننا پسند کرتے ہیں جن کے واہ واہ کرنے والے سب سے زیادہ ہوں، یا جن کو پذیرائی ملتی ہو۔ اس کی وجہ سے لوگ یہ تمیز کرنا بھول جاتے ہیں کہ کون زیادہ مستند باتیں کرتا ہے اور کون نہیں، بلکہ پھر انتخاب کا معیار یہ ہوتا ہے کہ کون عوام کو کتنا خوش کرتا ہے؟

5) اس روش کی وجہ سے مجلس تصنّع (بناوٹ) کا شکار ہوتی ہے، حقیقت کے رنگ سے زیادہ تصنّع کا رنگ آجاتا ہے۔

6) یہ روش مجلس کے آداب کے خلاف ہے جس میں غور سے اور خاموشی کے ساتھ عالم کی گفتگو سننے کا حکم ہے۔ مجلس کی ہیئت ہی عجیب ہوتی ہے اور مجلس نہیں لگتی بلکہ کوئی مشاعرہ لگتا ہے۔


اللہ تعالی ہم سب کو عزاداری حسین ع کو اصل روح کے ساتھ منانے کی توفیق عنایت فرمائے اور فرش عزا کو مقصد حسین (ع) کے صحیح ادراک کے لئے استعمال کرنے کی صلاحیت عطا فرمائے۔


آمین


العبد: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

کیا الّو عزادار پرندہ ہے؟

سوال) کچھ عرصہ پہلے فیس بک پر ایک روایت کافی مشہور ہوئی جس میں الّو کے بارے میں درج تھا کہ وہ عزادار ہے، پہلے شہروں میں انسانوں کے ساتھ رہتا تھا، واقعۂ کربلا ہوا تو شہر چھوڑ کر جنگلوں میں گیا جہاں دن بھر روزہ رکھتا ہے، اور راتوں کو جاگنا شروع کیا (اس سے پہلے رات کو نہیں جاگتا تھا)۔ آپ نے اس واقعے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا، اس بارے میں تفصیل سے آگاہ کریں۔

جواب) ہم اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ امام حسین ع پر تمام چرند و پرند، آسمان و زمین، نباتات و جمادات سب نے گریہ کیا۔ لیکن ہمیں اس الّو والی روایت کی سند و متن میں اشکال رہا ہے۔ روایت کو صرف نقل کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ روایت میں درایت ضروری ہوتی ہے یعنی اس کی صحّت و سقم پر غور و فکر اور اس کو سمجھنا، اس روایت کو قرآن و سنّت اور عقل سلیم پر پرکھنا تاکہ اس روایت کے اعتبار کے بارے میں معلوم ہو سکے۔ درایت کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب اس روایت کو قبول کرنے کی وجہ سے مذھب حقّہ پر سوالات اٹھتے ہوں۔

چنانچہ حدیث ہے؛ حدیث تدریه خیر من الف حدیث ترویه

"ایک حدیث جو درایت پر سمجھی جائے ہزار احادیث سے بہتر ہے جو محض روایت کی جائیں۔"

جب الّو والی روایت کو ہم درایت کے اصولوں پر پرکھتے ہیں تو یہ ناقابل قبول معلوم ہوتی ہے۔ الّو کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تاریخ، یہ ہمیشہ سے جنگلوں میں رہتا تھا اور راتوں کو جاگتا ہے اور دن کو سوتا ہے۔ قدیم یونان میں اس کے رات کو جاگنے کی وجہ سے الوّ کو عقل و علم کی علامت سمجھا جاتا تھا، اب بھی یورپ میں کئی یونیورسٹیوں کے مونوگرام میں الّو بنا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ واقعۂ کربلا کے بعد الّو نے جنگلوں میں رہنا شروع کیا، یا اس واقعے کے بعد اس نے راتوں کو شب بیداری شروع کی۔ ممکن ہے کہ اس واقعے کا اثر تمام جانداروں کی طرح الّو پر بھی ہوا ہو، لیکن جیسا کہ روایت میں بتایا گيا ویسا درایتا ممکن نہیں۔ محض روایت کو نقل کرنے میں حرج نہیں لیکن اس کو قبول کرنے میں سند اور متن دونوں کو مدّنظر رکھنا چاھئے، اگر حقائق سے ہٹ کر روایات کو بیان کریں گے تو اغیار ہمارا ہی تمسخر اڑائیں گے۔


الّو کوئی جدید پرندہ نہیں ہے، بلکہ علم حیوانات *Zoology* میں اس پر کافی تحقیقات ہوئی ہیں، بلکہ اس پر کتابیں، تحقیقات اور آرٹیکلز بھی لکھے گئے ہیں۔ الّو کی قدیم یونان میں بہت اہمیت تھی، یونانیوں کی عقل و دانش یعنی ٭Wisdom* کی دیوی*Athena* کا تعلّق الّو سے بتایا جاتا تھا۔ آپ گوگل کریں گے تو بہت کچھ آپ کو الّو کے تاریخی کردار خصوصا یونانیوں کے ہاں ملے گا۔

ان لنکس کا مشاہدہ کریں؛


In the mythology of ancient Greece, Athene, the Goddess of Wisdom, was so impressed by the great eyes and solemn appearance of the Owl that, having banished the mischievous crow, she honoured the night bird by making him her favourite among feathered creatures.

Cynthia Berger theorizes about the appeal of some characteristics of owls —such as their ability to see in the dark— to be used as symbol of wisdom

اور یہ لیجئے الّو پر ایک مستقل کتاب ٭Minerva's owl wisdom٭ کا مطالعہ کریں، اس میں الّو کی قدیم معاشروں میں تاریخ تفصیل سے موجود ہے۔


اگر گوگل امیج میں جا کر سرچ کریں تو آپ کو الّو عینک لگائے، کتاب ہاتھ میں اٹھائے یا پڑھتا ہوا، یا پھر اسکالرز کی ٹوپی لگائے نظر آئے گا؛


میرا جہاں تک مطالعہ ہے وہ یہی ہے کہ الّو قدیم جاپان، یونان، افریقہ اور امریکہ میں جنگل میں رہتا تھا جہاں سے اس کا شکار ہوتا تھا۔ تاریخ میں کہیں پر بھی نہیں ملتا کہ الّو کبھی انسانوں کے ساتھ رہتا ہو اور آبادیوں میں رہتا ہو۔۔۔ اس کو جادوگر اپنے جادو میں استعمال کرتے تھے اور عموما جنگلوں سے پکڑ کر قید کر لیتے تھے۔ یہ شروع سے ہی رات کے پرندے کے نام سے مشہور ہے۔ چمگادڑ اور الّو تاریخی طور پر رات کے پرندے ہیں

ممکن ہے کہ اس واقعے کا اثر تمام جانداروں کی طرح الّو پر بھی ہوا ہو، لیکن جیسا کہ روایت میں بتایا گيا ویسا درایتا ممکن نہیں۔ محض روایت کو نقل کرنے میں حرج نہیں لیکن اس کو قبول کرنے میں سند اور متن دونوں کو مدّنظر رکھنا چاھئے، اگر حقائق سے ہٹ کر روایات کو بیان کریں گے تو اغیار ہمارا ہی تمسخر اڑائیں گے۔ بقول آیت اللہ تقی شوشتری، رسوا ترین روایت وہ ہے جس کو مسلّمہ تاریخ جھٹلا دے (الاخبار الدّخیلہ)


خاکسار: ابوزین الہاشمی

نوحے خوانی کی صنعت اور کمرشل ازم

٭نوحے خوانی کی صنعت اور کمرشل ازم٭

امام حسین(ع) پر گریہ اور ان کے مصائب پر مشتمل اشعار پڑھ کر ہاتھ سینے پر اٹھانا افضل قربات میں سے ہے اور یہی علماء و اسلاف کی سیرت رہی ہے۔ ہمیشہ سے علماء کی زیر سرپرستی نوجوان نوحہ خوانی اور سینہ زنی کے اجتماعات منعقد کرتے تھے اور کئی جگہوں پر علماء کرام نے خود مرثیے اور نوحے لکھے۔

آج کل دولت کی ریل پیل کی وجہ سے نوحہ خوانی باقاعدہ ایک صنعت کا رخ اختیار کر گئی ہے۔ جـگہ جگہ البم نکالے جاتے ہیں اور میوزک کی دھنوں پر باقاعدہ نوحے کی دھن ترتیب دی جاتی ہے۔ نوحہ خوان حضرات پہلے "دھن" سوچتے ہیں اور اس دھن کو موسیقی کے آلات پر باقاعدہ تشکیل دی جاتی ہے اور پھر شعراء کو دیا جاتا ہے جو ان دھنوں کے مطابق شاعری کرتے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نوحہ خوان حضرات کی تمام تر توجّہ دھن کی کامیابی پر ہوتی ہے اور رقّت و صحیح واقعات کے ابلاغ کو ثانوی اہمیت دی جاتی ہے۔

اس کے بعد جب یہ نوحہ تیّار ہوتا ہے تو *Beats* کی شکل میں سینہ زنی کی آواز کو جھنکار کی صورت میں نوحے میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس سے ایک مخصوص آواز نکلتی ہے جو نوحے کو بہت خوبصورت بنا دیتی ہے۔


پھر جب یہ البم تیّار ہو کر آتے ہیں تو سامعین کے افعال ملاحظہ کیجئے۔ اکثر لوگ نوحے اس لئے لگاتے ہیں کہ پہلے گانے سنتے تھے اب ایاّم عزا ہیں تو سماعتوں پر خوشگوار اثر ڈالنے کے لئے نوحے لگائے جاتے ہیں، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اکثر اوقات نوحے چل رہے ہوتے ہیں اور سامعین باہم دنیاوی امور پر گفتگو کرتے ہیں یا پھر ہنسی مذاق کر رہے ہوتے ہیں اور بہت کم ہوتے ہیں جو نوحے کے الفاظ پر غور کریں۔ گویا نوحے کا کوئی احترام ہی نہیں، اور احترام بھلے کیسے ہو سکتا ہے جب خود نوحہ خوان مندرجہ بالا انداز میں نوحے بناتے ہیں جو بلاشبہ ذکر حسین(ع) کی بے ادبی ہے۔

بہت سے احباب گاڑیوں میں ڈیک پر بلند آواز سے نوحے چلاتے ہیں تاکہ گردو پیش لوگ متوجہ ہوں کہ کسی مولائی کی گاڑی ہے اور اندر بھی خلوص کا فقدان ہوتا ہے۔ بہت سے شاید ایسے بھی ہیں جو نوحے میں سینہ زنی پر مشتمل جھنکار *Beat* کے ساتھ ساتھ پیر زمین پر پٹختے ہیں۔

اور پھر بعض نوحے خوان حضرات کی طرف سے نوحے کی محافل میں پڑھنے کے لئے گرانقدر پیسوں کا مطالبہ یا ملک سے باہر جانے کے لئے فائیو اسٹار ہوٹل میں رہنے کا مطالبہ بھی مشہور ہے۔ ان سب باتوں کی وجہ سے وہ نوحہ خوانی جو کبھی خلوص سے مرقّع ہوتی تھی اب صرف ظاہری رسم بن کر رہ گئی ہے۔ ہم نے ان چیزوں کی طرف اشارہ نہیں کیا جہاں بعض نوحہ خوان غلط عقائد پڑھتے ہیں یا پھر غلط اور جعلی مصائب۔

ہماری ان باتوں کا مقصد ہرگز کسی کی دل آزاری نہیں ہے، اور نہ ہم سینہ زنی اور نوحہ خوانی کے خلاف ہیں، لیکن خدارا آپ ہی انصاف سے بتائیے کہ نوحہ خوانی کے نام پر ہم کیا ذکر حسین(ع) کی توہین نہیں کر رہے؟

مقصد صرف یہ ہے کہ نوحہ خوانی میں مندرجہ بالا قابل اعتراض باتوں کو نکال کر اس کو صاف شفّاف بنائیں تاکہ یہ خلوص اور سینہ زنی ہمیں اللہ تعالی اور معصومین(ع) کے نزدیک کر دے۔

والسّلام


خاکسار: ابو زین الہاشمی

تحریک تحفظ عقائد شیعہ

قاتلان حسین(ع) کا مذہب

٭قاتلان حسین(ع) کا مذہب٭

اکثر دشمنان تشیّع یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ خود شعوں نے امام حسین(ع) کو قتل کیا، یہ نادان اس لئے یہ تاثر دیتے ہیں کیونکہ شیعوں نے ہی بعد میں توّابین کے نام سے تحریک چلائی۔ آئیے ہم خود فوج یزید کا عقیدہ انہی کی زبانی سنتے ہیں:

1) ابن زیاد (ملعون) نے عمر بن سعد(ملعون) کو خط لکھا کہ حسین(ع) اور ان کے اصحاب پر پانی بند کر دو تاکہ پانی کا ایک قطرہ بھی ان تک نہ پہنچے جیسا کہ مظلوم خلیفہ عثمان بن عفان کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا۔

(تاریخ طبری: جلد 5 ص412)

2) فوج حسین(ع) سے حضرت نافع بن ہلال (ر) نے میدان جنگ میں قدم رکھا اور رجز پڑھا اور کہا: میں علی(ع) کے دین کا عقیدہ رکھتا ہوں۔ ابن زیاد کی فوج سے مزاحم بن حریث (ملعون) ان سے مقابلہ کرنے نکلا اور نافع(ر) کے جواب میں کہا: میں عثمان کے دین کا معتقد ہوں۔

(تاریخ طبری: ج4 ص 33، الارشاد: جلد 2 ص103)

3)یزید بن معقل (ملعون) نے امام حسین(ع) کے ساتھی بریر بن خضیر (ر) سے کہا کہ دیکھ رہے ہو اللہ نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟

بریر (ر) نے جواب دیا کہ اللہ نے میرے لئے جو کچھ قرار دیا ہے وہ سعادت و خوشبختی ہے اور جو کچھ تمہارے ساتھ پیش آرہا ہے وہ شقاوت و بدبختی ہے۔

یزید بن معقل نے کہا: تم جھوٹ بول رہے ہو! تجھے وہ وقت یاد ہے جب تم قبیلہ بنی لوذان میں جھوٹی باتیں حضرت عثمان کو کہتے تھے اور معاویہ کو گمراہ اور گمراہ کرنے والا کہتے تھے؟

بریر(ر) نے کا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میرا عقیدہ یہی ہے جو تو کہہ رہا ہے۔

یزید بن معقل نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تو گمراہ افراد میں سے ہے۔

بریر(ر) نے کہا: کیا تو مباہلہ کرنے پر تیار ہے اور پھر ہم لڑیں؟

یزید بن معقل نے قبول کیا اور پھر دونوں نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور جھوٹے پر لعنت کی اور دعا کی کہ جو حق پر ہے اسے باطل پر غلبہ عطا فرما، پھر دونوں میں لڑائی ہوئی اور بریر(ر) نے یزید بن معقل (لعین) کو قتل کر دیا۔

(الکامل فی التاریخ: جلد 4 ص66)

4) جب اسیران کربلا واپس مدینہ آئے تو بنی ہاشم کی خواتین گریہ و زاری کرنے لگیں۔ راوی کہتا ہے کہ میں اس وقت عمرو بن سعید اشدق (لعین) کے پاس گیا، عمرو اس منظر کو دیکھ کر ہنسا اور کہا: ھذا واعیۃ بواعیۃ عثمان بن عفّان، یعنی یہ عزا عثمان بن عفان کی مصیبت کے مقابلے میں ہے۔

(تاریخ طبری: جلد 4 ص357)

پس ثابت یہ ہوا کہ فوج یزید کی اکثریت ناصبی تھی یا کم سے کم شیعہ نہیں تھی۔ ابن زیاد بھی عثمانی تھا اور عمر بن سعد بھی عثمانی تھا، اور تمام ملاعین فوج یزید ناصبی تھے۔

خاکپائے اہل بیت(ع): ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ

عزاداری امام حسین(ع) قدیم ایّام میں

٭عزاداری امام حسین(ع) قدیم ایّام میں٭

ہم یہاں کچھ قدیم منابع پر روشنی ڈالیں گے جن کے مطابق عزاداری کی محافل کا انعقاد شروع سے ہی رہا ہے۔ ہم یہاں معصومین(ع) کی طرف سے عزاداری کی مجالس کی طرف اشارہ نہیں کریں گے کیونکہ یہ اکثر بیان کی جاتی ہیں، لیکن مروّجہ انداز میں جلوس نکالنے اور ماتم کرنے کی روش پر گفتگو کریں گے۔

ابتدا میں ہم بتائیں گے کہ بنو امیّہ کی طرف سے عاشورا کس طرح سے منایا جاتا تھا۔ مشہور مؤرخ ابو ریحان البیرونی لکھتے ہیں؛

"بنو امیّہ اس دن نیا لباس پہنتے تھے اور تزئین و آرائش کرتے تھے، سرمہ آنکھوں میں لگاتے تھے، عید مناتے تھے اور خوشبوجات کا استعمال کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے گھر ملنے جاتے تھے اور کھانا کھلاتے تھے، جب تک ان کا اقتدار رہا عام لوگوں میں بھی یہ رسم موجود تھی۔" (آثار الباقیہ از البیرونی، ص576)

اسی سے اندازہ لگا لیں کہ آجکل یہ حرکتیں کرنے والے بنو امیّہ سے روحانی تعلّق رکھتے ہیں۔ اسی کی طرف زیارت عاشوراء میں اشارہ ہے "ھذا یوم فرحت بہ آل زیاد و آل مروان بقتلھم الحسین صلوات اللہ علیہ۔" یعنی یہ وہ دن ہے جب آل زیاد اور آل مروان نے امام حسین(ع) کے قتل کی خوشی منائی۔

البتہ محباّن اہل بیت(ع) کے لئے یہ جانگداز واقعہ ان کی زندگیوں پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا جس کو وہ کبھی فراموش نہ کر سکے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شدّت میں کمی کے بجائے اضافہ ہی دیکھا گیا، محبّان اہل بیت(ع)نے ہمیشہ غم منا کر ہی محرّم گزارا۔ مؤرخ طبری کی روایت کے مطاق جب سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں سن65 ہجری میں توابین کی تحریک شروع ہوئی تو پہلے سب لوگ کربلا امام حسین(ع) کی قبر مبارک پر گئے اور ایک دن اور رات مسلسل گریہ و زاری کرتے رہے۔ طبری کے بقول کسی نے اس طرح کا گریہ آج تک نہیں دیکھا تھا۔

مشہور شیعہ محدّث ابن قولویہ لکھتے ہیں کہ امام صادق(ع) کے دور میں کوفہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں سے لوگ امام حسین(ع) کی زیارت کو جاتے تھے جہاں وہ قرآن پڑھتے، مصائب پڑھنے کے ساتھ ساتھ نوحہ خوانی و مرثیہ خوانی کرتے تھے۔ (لؤلؤ و مرجان از محدّث نوری، ص4)

یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ متوکّل کے دور میں امام حسین(ع) کی قبر مبارک اور اطراف پر پانی چھوڑا گيا اور یہاں کاشتکاری کی گئی۔ متوکّل ملعون کے بعد زائرین و عزاداری کا یہ سلسلہ پھر سے شروع ہوا۔

لوگوں کا جمع انبوہ امام حسین(ع) کی زیارت کے لئے کربلا جاتا رہا۔ تاریخی منابع میں ہمیں ملتا ہے کہ احمد بن حنبل کے کچھ پیروکار جو اپنے آپ کو "سلفیہ" کہتے تھے، کربلا کے راستے میں کمین گاہیں لگاتے تھے اور شیعہ زائرین و عزاداروں کو اذیّت کرتے تھے۔ (تاریخ ابن اثیر، حوادث سنہ 323)۔

جب 332 ہجری میں آل بویہ خاندان کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوا اور عملی طور پر ان کی حکومت قائم ہوئی تو عزاداری کو ایک نئی جہت ملی۔ یاد رہے کہ آل بویہ خاندان شیعہ تھا۔ مؤرخ ابن اثیر سنہ 352 قمری کے حوادث میں لکھتے ہیں "عاشوراء والے دن معزالدّولہ نے لوگوں کو حکم دیا کہ اس دن تمام دکانیں اور دفاتر بند رہیں گی اور چھٹی کا اعلان کیا، حکم دیا کہ عزاداری کریں اور مخصوص سیاہ قبا پہنیں گریبان چاک کریں، عورتیں اپنے بالوں کو پریشان کریں، اور شہر (بغداد) میں سڑکوں پر گھومیں۔ اپنے سر، چہرے اور سینہ پر ماتم کریں اور یا حسین! کا نعرہ لگائیں۔ تمام لوگوں نے ایسا ہی کیا اور سنّیوں نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ کسی کو منع کرنے کی جرات نہیں ہوئی کیونکہ شہر میں شیعوں کی تعداد زیادہ تھا اور سلطان بھی ان کے ساتھ تھا۔"

یہاں یہ اشارہ دلچسپ ہوگا کہ یہ غیبت کبری کے اوائل کی بات ہے۔

یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک آل بویہ خاندان کو عروج حاصل تھا، جب یہ خاندان کمزور ہوا تب بھی یہ مراسم کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیعوں کی دیکھا دیکھی سنّیوں نے بھی ایسے جلوس نکالنے شروع کیے۔ مؤرخ ابن اثیر اپنی تاریخ میں سنہ 389 ہجری کے حوادث میں لکھتا ہے؛

"بغداد میں باب البصرہ (جہاں سنّی زیادہ تھے) والوں نے کرخ (جہاں شیعہ زیادہ تھے) کے مقابلے میں عاشوراء کے آٹھ دن بعد عزاداری شروع کی کیونکہ اس دن مصعب بن زبیر کو قتل کیا گيا تھا۔"

شبیہ سازی کی ابتدا بھی اہل سنّت نے شروع کی چنانچہ مؤرخ ابن اثیر سنہ 363 ہجری کے حوادث میں لکھتے ہیں؛ "شیعہ اور سنّی کے درمیان ایک عظیم فتنہ شروع ہوا، سوق الطعام کے محلّے میں جہاں اکثریت سنّی تھی، ایک عورت کو اونٹ پر سوار کیا اور اس کا نام عائشہ رکھا۔ ان میں سے ایک نے خود کو طلحہ کہا اور دوسرے نے زبیر، یہ گروہ دوسرے گروہ (شیعوں) کے مقابلے میں جنگ پر روانہ ہوا اور اعلان کیا کہ ہم "علی ابن ابیطالب" کے اصحاب سے جنگ لڑیں گے۔"

بہرکیف مراسم عزاداری اسی طرح سے قائم رہے، عبدالجلیل قزوینی کی تحریروں سے استفادہ ہوتا ہے کہ امام حسین(ع) پر یہ گریہ و ماتم نہ صرف شیعوں میں برقرار تھا بلکہ کئی سنّی علماء بھی یہ مراسم مناتے تھے۔ خراسان میں شیعہ سنّی سب مل کر عزاداری کا انعقاد کرتے تھے جس کا خاص اہتمام وہاں کے سنّی امراء کرتے تھے۔ صفویوں کے دور اقتدار سے پہلے ایک خراسانی سنّی شاعر و مصنّف نے امام حسین(ع) کے فضائل، مصائب اور عزاداری کے ثواب پر ایک کتاب "روضۃ الشہداء" لکھی جو بعد میں صفوی دور میں بہت مشہور ہوئی۔ ذاکرین اسی کتاب سے مصائب پڑھتے تھے اور یہ سلسلہ ایسا رائج ہوا کہ ایران میں اب بھی مصائب پڑھنے کو "روضہ خوانی" کہتے ہیں یعنی روضۃ الشہداء پڑھنا، کیونکہ ذاکرین منبر پر اسی کتاب کو لے کر مصائب پڑھتے تھے۔ گو کہ روضۃ الشہداء میں بہت علمی محدودیت تھی اور بعد میں رائج ہونے والے بہت سے واقعات کربلا میں روضۃ الشہداء کا کردار رہا ہے لیکن اس کے اثر و نفوذ سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا۔

اگر اللہ نے توفیق دی تو کبھی صفوی دور میں رائج عزاداری کی رسومات پر تحریر لکھیں گے۔


والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ


خاکپائے اہل بیت(ع): ابو زین الہاشمی

شیخ مفید (رض) اور نظریۂ ولایت فقیہ

٭شیخ مفید(رض) اور ولایت فقیہ٭

اکثر ولایت فقیہ کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ نظریہ امام خمینی(رض) نے سب سے پہلے دیا اور ان سے پہلے کسی بھی شیعہ مرجع یا عالم نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ یہ باتیں ان کی جہالت پر دلالت کرتی ہیں اور محض عوام کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔ مسئلہ ولایت فقیہ غیبت کبری کے بعد فقہائے شیعہ کے درمیان ایک اہم موضوع رہا ہے۔ انشاء اللہ ہم اپنے دیگر سلسلوں کے ساتھ مسئلہ ولایت فقیہ پر بھی لکھنے کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ ابتدا میں ہم رئیس المذھب الشیعہ شیخ مفید رضی اللہ عنہ کی آراء اس حوالے سے لکھ رہے ہیں۔


شیخ مفید اپنی مشہور کتاب المقنعہ میں لکھتے ہیں؛

فأما إقامة الحدود فهو إلى سلطان الإسلام المنصوب من قبل الله تعالى و هم أئمة الهدى من آل محمد ع و من نصبوه لذلك من الأمراء و الحكام و قد فوضوا النظر فيه إلى فقهاء شيعتهم مع الإمكان

"حدود کو قائم کرنا اسلامی حاکم سے مربوط ہے جو اللہ کی طرف سے منصوب و منصوص ہو، اور یہ آل محمد میں سے ہمارے آئمہ ھدی (علیھم السلام) ہیں، یا وہ ہیں جن کو (ہمارے آئمہ) بطور امیر و حاکم نصب کریں۔ یہ اختیار (غیبت کبری میں) شیعہ فقہاء کو تفویض کیا جا چکا ہے بشرطیکہ یہ ذمّہ داری پوری کرنا فقہاء کے لئے ممکن ہو۔"

(المقنعہ: ص810)

واضح ہے کہ شیخ مفید(رض) یہاں تمام احکامات جو سلطان عادل سے مربوط ہیں، غیبت کبری میں فقہائے شیعہ کو تفویض ہونے کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ حالات فقہائے شیعہ کے لئے سازگار ہوں۔ جس زمانے میں اقتدار شیعوں کے پاس نہیں اور سلطان جائر کے پاس ہے تو ظاہر ہے یہ شیعہ فقہاء کے لئے ممکن نہ ہوگا، لیکن اب الحمدللہ حکومت اسلامی قائم ہو چکی ہے تو ایک عادل فقیہ یہ تمام ذمہ داریاں سنبھالے گا۔

شیخ مفید ایک اور جگہ وصیّت کے باب میں فرماتے ہیں؛

و إذا عدم السلطان العادل فيما ذكرناه من هذه الأبواب كان لفقهاء أهل الحق العدول من ذوي الرأي و العقل و الفضل أن يتولوا ما تولاه السلطان فإن لم يتمكنوا من ذلك فلا تبعة عليهم فيه و بالله التوفيق

"جب سلطان عادل (امام معصوم) موجود نہ ہو تو جیسا کہ ہم نے ان ابواب میں ذکر کیا، سلطان عادل (امام معصوم) کے امور اور ان کی ذمّہ داریاں وہ اہل حق اور عادل فقہاء اٹھائیں گے جو عاقل و فاضل ہوں۔ اور جب ان (فقہاء) کے لئے یہ مناصب اٹھانا ممکن نہ ہو تو ان پر کوئی ذمہ داری نہیں۔"

(المقنعہ: ص676)

آپ نے ملاحظہ کیا کہ امام معصوم(ع) کی غیبت کے دوران بصورت امکان فقہائے شیعہ کی ذمہ داری ہے کہ زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لیں تاکہ عدالت و انصاف قائم رہے۔ جب ان فقہاء کے لئے یہ ممکن نہیں ہو تو ان پر ذمہ داری نہ ہوگی لیکن جب فقہائے عادل زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لے سکیں تو امام معصوم(ع) کے تمام عہدے وہی اٹھائیں گے۔

ہم درود و سلام بھیجتے ہیں امام الخمینی(رض) پر جنہوں نے قیام کر کے شیخ مفید کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کیا۔


والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ


العبد: ابو زین الہاشمی

اولاد کی اجداد سے شباہت

٭اولاد کی اجداد سے شباہت٭


أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ أَبِي الْخَطَّابِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْلُقَ خَلْقاً جَمَعَ كُلَّ صُورَةٍ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ أَبِيهِ إِلَى آدَمَ ثُمَّ خَلَقَهُ عَلَى صُورَةِ أَحَدِهِمْ فَلَا يَقُولَنَّ أَحَدٌ هَذَا لَا يُشْبِهُنِي وَ لَا يُشْبِهُ شَيْئاً مِنْ آبَائِي

امام جعفر صادق(ع): "جب اللہ تبارک و تعالی کسی انسان کو خلق کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے والد اور آدم(ع) تک تمام آباء و اجداد کی صورتوں کو جمع کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کو ان میں سے کسی کی بھی صورت پر خلق کرتا ہے۔ لہذا تم میں سے کوئی (اپنی زوجہ کے بارے میں بدگمان نہ ہو اور) نہ کہے کہ یہ بچہ مجھ سے نہیں ملتا یا میرے آباء میں سے کسی سے نہیں ملتا (کیونکہ ممکن ہے کہ یہ اس کے اجداد میں سے کسی کی صورت ہو جس کو اس نے کبھی نہ دیکھا ہو)۔"

(علل الشرائع: جلد1 ص103 باب 93)



رجال الحدیث:

شیخ صدوق نے یہ روایت اپنے والد "ابن بابویہ قمّی" سے نقل کی جو ثقہ و جلیل القدر ہیں۔ انہوں نے اپنے شیخ احمد ابن ادریس القمّی سے نقل کیا جو ثقہ ہیں اور جن سے 2826 احادیث کتب اربعہ میں منقول ہیں، پس کثیر الرّوایہ ہیں۔ انہوں نے محمد بن حسین بن ابی الخطاب سے روایت کی جو شیخ نجاشی کے بقول جلیل القدر، کثر الرّوایہ اور مورد اطمینان ہیں۔ انہوں نے جعفر بن بشیر سے نقل کیا جو ثقہ ہیں، لیکن جعفر بن بشیر نے یہ روایت ارسال کے ساتھ امام صادق(ع) سے نقل کی۔۔۔ یہاں "رجل" کا لفظ استعمال ہوا اور رجل کون ہے یہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ جعفر بن بشیر نے ثقات سے بھی نقل حدیث کیا اور غیر ثقات سے بھی، اور ہمیں معلوم نہیں کہ یہاں "رجل" ثقہ ہے یا نہیں۔ لہذا اس میں ارسال پایا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ کسی راوی کا سہو ہو کہ وہ یہاں پر جعفر بن بشیر اور امام صادق(ع) کے درمیان واسطے کو بھول گیا۔

درایۃ الحدیث:

مروّجہ اصطلاحات کے مطابق یہ روایت "مرسل" کہلائے گی۔ لیکن جیسا کہ ہم بہت دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ ہم سند کے ساتھ ساتھ دیگر قرائن کو بھی دیکھتے ہیں اور وثوق صدوری کے قائل ہیں۔ جب اس روایت پر غور کرتے ہیں تو اس کے تمام روات اجلاّء و ثقات سے مروی ہیں، جس سے وثوق بڑھ جاتا ہے۔ لیکن جب اس روایت کے مضمون اور اس کے متن میں غور کرتے ہیں تو یہ یقین مزید بڑھ جاتا ہے۔

جدید سائنس نے اس بات کی تائید کی ہے کہ اولاد اپنے پدری و مادری اجداد میں سے کسی پر بھی جا سکتا ہے۔ *Genetic Science* ایک باقاعدہ علم ہے جس میں جینیات پر بات کی جاتی ہے، لہذا یہ ایک سائنسی اصول ہے جس کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے۔

یہ حدیث نہ صرف یہ کہ مورد قبول ہے بلکہ ہمارے لئے افتخار کا باعث ہے کہ جس چیز پر آج جدید سائنس برسوں کی محنت اور ہزاروں محققّین کی تحقیقات سے پہنچے، وہ آج سے تیرہ سو سال پہلے ہمارے مولا و آقا امام جعفر صادق(ع) بتا چکے ہیں اور بیان کر چکے ہیں۔ اس بات سے ہمارا ہمارے آئمہ(ع) اور ان کے علوم لدنّی پر ایمان بڑھ جاتا ہے، لہذا ایسی روایتوں کی اسناد میں کوئی اشکال بھی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔

اللہ تعالی ہمیں توفیق دے کہ ہم محمد و آل محمد(ص) کی تعلیمات کو بہتر انداز میں سمجھیں اور دعا ہے کہ ان کی محبّت و ولایت کو ہمارے دلوں میں مزید پختہ کرے۔

والسّلام علی من اتبع الھدی


العبد: ابو زین الہاشمی

Monday, January 6, 2014

حدیث کساء کی اسناد کا ایک تحقیقی جائزہ

"حدیث کساء کی اسناد کا ایک تحقیقی جائزہ"

تمھید :

حدیث کساء اصطلاح میں اس حدیث شریف کو کہتے ہیں جو شیعہ سنّی کتب میں تواتر تک پہنچی ہوئی ہے اور جس میں حضرت محمد مصطفی(ص) ایک کساء یعنی چادر میں مولا علی، فاطمہ، حسن و حسین (علیہم السلام) کو جمع کرتے ہیں اور پھر آیۂ تطہیر٭انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطہّرکم تطہیرا٭ (احزاب:33) نازل ہوئی۔

جہاں تک اس واقعے کا تعلق ہے تو یہ یقینا ھوا اور اہل سنّت کے منابع سے بھی ثابت ہے۔ ذیل میں ان کچھ سنّی کتب کا تذکرہ ہے 
جہاں اس واقعے کا ذکر ہوا ہے؛

صحیح مسلم : 4 / 1883 ، حدیث : 2424 ، طبعة : بیروت / لبنان
أحمد بن حنبل : المسند : 6 / 292 ، طبع بیروت .
ابن الأثیر : أسد الغابة : 7 / 343 طبع بیروت
ابن المغازلی الشافعی : المناقب : 100 ، طبع بیروت .
ابن حجر : الإصابة : 4 / 568 ، طبع بیروت .
ابن حجر : الصواعق المحرقة : 143 ، طبع القاهرة .
ابن كثیر : تفسیر القرآن العظیم : 3 / 493 ، طبع بیروت .

اگر شمار کرنے پر آئیں تو ایسے منابع بہت ہیں جو ان احادیث کے صحیح ھونے پر اور شہرت پر دلالت کرتی ہیں اور ہم انہی پر اکتفا 
کرتے ہیں کیونکہ یہ ھمارے موضوع سے خارج ہے۔


اس حدیث کساء کا بیان جس کو خاص الفاظ کے ساتھ عموما پڑھا جاتا ھے

وہ حدیث کساء جو جابر بن عبداللہ انصاری(ر) سے مروی ھے اور جناب فاطمہ(ع) اس واقعے کو نقل کرتی ہیں، وہ کسی بھی صورت میں ثابت نہیں ھے اور ثابت نہ ھونے کی صورت میں اس کو ان ذوات مقدّسہ سے منسوب کرنا اور اس پر اعتقاد رکھنا جائز نہیں ھے۔ یہ حدیث کساء جو ھمارے ہاں رائج ہے یہ مفاتیح الجنان کے ضمیمہ جات میں مرقوم ھے اور اس حدیث کو شیخ عبداللہ بحرانی 
کی کتاب "عوالم العلوم" سے لیا گیا ھے۔


اس روایت کا سلسلۂ سند کچھ یوں ہے؛

رأيت بخطِّ الشيخ الجليل السيّد هاشم، عن شيخه السيّد ماجد البحراني، عن الحسن بن زين الدين الشّهيد الثاني، عن شيخه المقدس الأردبيلي، عن شيخه علي بن عبدالعالي الكركي، عن الشيخ علي بن هلال الجزائري، عن الشيخ أحمد بن فهد الحلّي، عن الشيخ علي بن الخازن الحائري، عن الشيخ ضياء الدين علي بن الشّهيد الأوّل، عن أبيه، عن فخر المحققين، عن شيخه ووالده العلامة الحلّي، عن شيخه المحقق، ابن نما الحلّي، عن شيخه محمّد بن إدريس الحلّي، عن ابن حمزة الطوسي صاحب ثاقب المناقب، عن الشيخ الجليل محمّد بن شهرآشوب، عن الطبرسي صاحب الاحتجاج، عن شيخه الجليل الحسن بن محمّد بن الحسن الطوسي، عن أبيه شيخ الطائفه، عن شيخه المفيد، عن شيخه ابن قولويه القمي، عن شيخه الكليني، عن علي بن إبراهيم، عن أبيه إبراهيم بن هاشم، عن أحمد بن محمّد بن أبي نصر البزنطي، عن قاسم بن يحيي الجلاّء الكوفي، عن أبي بصير، عن أبان بن تغلب البكري، عن جابر بن يزيد الجعفي، عن جابر بن عبداللّه الأنصاري، عن فاطمة الزهراء بنت رسول اللّه صلّى اللّه عليه وآله


٭عوالم العلوم ج11 ص638، شرح احقاق الحق ج 2 ص 554٭


سلسلۂ سند آپ نے ملاحظہ کیا، اب اس پر درج ذیل اشکالات وارد ہوتے ہیں؛


1) یہ سلسلۂ سند اپنی جگہ بالکل انوکھا ہے، اس میں شیخ عبداللہ بحرانی اس روایت کو کئی علمائے شیعہ سے نقل کرتے ہیں۔ جن میں سیّد ھاشم بحرانی، سیّد ماجد بحرانی، شہید ثانی، مقدّس اردبیلی، شیخ جزائری، ابن فہد حلّی، شہید اوّل، فخر المحققین، علاّّمہ حلّی، ابن نما حلّی، ابن ادریس حلّی، ابن حمزہ طوسی، ابن شھر آشوب، علامہ طبرسی، شیخ طوسی، شیخ مفید، ابن قولویہ اور شیخ کلینی جیسے بزرگ شامل ہیں۔ قابل تعجّب بات یہ ھے کہ ان بزرگ شیعہ علماء میں سے کسی نے بھی اس حدیث کو اپنی کتب میں جگہ نہیں دی۔ نہایت حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس حدیث کو یہ بزرگ سینہ بسینہ نقل کرتے رہے اس 
حدیث کو ان میں سے کسی بھی بزرگ نے اپنی کتب میں جگہ نہیں دی۔

جو لوگ اس حدیث کی اسناد کو معتبر سمجھتے ہیں وہ عموما ایک یا دو بزرگ کا ذکر کر کے کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ وہ ھر سنی ہوئی حدیث کو رشتۂ تحریر میں لے آئیں، لیکن ان سے میرا سوال یہ ہے کہ یہاں ایک یا دو بزرگ کی بات نہیں ھو رہی بلکہ دس سے زیادہ بزرگوں کا ذکر ہے اور ان میں ھر کوئی صاحب تصنیف رہا ہے اور کئی لوگوں نے تو تصنیفات کے انبار لگائے ہیں۔ ایسا 
اتفاق کیسے ھو سکتا ھے کہ یہ حدیث کسی بھی بزرگ کے قلم کے دل میں جگہ نہ بنا سکی؟

یہ بہرحال ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ھے۔


2) آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کی تحقیق کے مطابق یہ روایت اصل کتاب "عوالم العلوم" میں موجود نہیں ھے۔ ایران کے شہر یزد کے سرکاری کتب خانے میں عوالم العلوم کا اصلی نسخہ خود شیخ عبداللہ بحرانی کے ہاتھ کا لکھا ہوا موجود ھے جس میں آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی حفظہ اللہ کے مطابق یہ روایت اصل کتاب میں نہیں بلکہ حاشیے پر موجود ہے۔ اور اس حاشیے پر موجود خط (رائیٹنگ) شیخ عبداللہ بحرانی کے خط سے مختلف ہے اور بخوبی روشن ہوتا ھے کہ یہ روایت بعد میں عوالم العلوم میں شامل کی گئی ہے۔ تفصیلات کے لئے آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی (اعلی اللہ مقامہ) کی کتاب مفاتیح نوین کے صفحہ 1165 کی طرف رجوع کریں۔


3) اس سلسلۂ سند میں کچھ افراد ایک دوسرے سے اسّی 80 سال تک کا فاصلہ بھی رکھتے ہیں اور اس لمبے فاصلے میں ان کا ایک دوسرے سے ملاقات اور حدیث کا سماع ممکن ہی نہیں۔


4) عوالم العلوم سے پہلے یہ روایت کسی بھی معتبر کتاب میں نقل نہیں کی گئی۔ شیخ عبداللہ بحرانی نے کم و بیش علامہ مجلسی کے دور میں یا اس کے بعد عوالم العلوم لکھی تھی۔ مفاتیح الجنان کے مصنّف شیخ عبّاس قمی اور آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کی تحقیق کے مطابق یہ روایت عوالم العلوم سے پہلے صرف "منتخب طریحی" میں نقلی ہوئی اور اس میں بھی بغیر کسی سند کے۔ چنانچہ شیخ عبّاس قمی فرماتے ہیں؛

حدیث معروف به حدیث کساء که در زمان ما شایع است باین کیفیت در کتب معتبره معروفه و اصول حدیث و مجامع متقنه محدثین دیده نشدہ

معتبر اور معروف کتابوں میں اور اصول حدیث میں اس کیفیت کے ساتھ جس طرح سے حدیث کساء ھمارے زمانے میں مروّج ہے، اس کو میں نے کسی بھی مجموعۂ حدیث میں نہیں دیکھا۔

٭منتہی الآمال، ص527٭


اگر عوالم العلوم سے پہلے بھی کسی شاذ کتاب میں اگر ملی بھی ہے تو بغیر کسی سند کے ساتھ جس طرح سے منتخب طریحی میں درج ہے۔


5) اس سلسلۂ حدیث میں قاسم ابن یحیی جلاء کوفی ہے جس کا کوئی ذکر رجال کی کتب میں نہیں، لہذا یہ راوی مجہول ہے اور یہ سند درجۂ اعتبار سے ساقط ہے۔ حدیث کساء کے حامی حضرات یہ کہہ کر اس داغ کو دھونے کی کوشش کرتے ہیں کہ قاسم بن یحیی جلاء کوفی سے مراد یہاں قاسم بن یحیی بن حسن بن راشد ہے جس کا ذکر کتب رجال میں ملتا ھے۔ لیکن اگر آپ یہاں پر قاسم بن یحیی بن حسن بن راشد بھی اگر لے لیتے ہیں تو تب بھی اس کی کوئی خاص توثیق ثابت نہیں ھے بلکہ ابن غضائری نے اس کو ضعیف کہا ہے (رجال ابن غضائری، ص86)۔ علاوہ ازیں علامہ حلی نے اس کو خلاصۃ الاقوال میں اس کو ضعیف کہا ہے۔


6) قاسم بن یحیی جلاء کوفی یہاں پر بغیر کسی واسطے کے ابو بصیر سے نقل کرتا ہے جبکہ دونوں کے زمانے میں ایک پشت کا فاصلہ ہے۔ اس مشکل کو حدیث کساء کے ماننے والے اس طرح رفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قاسم بن یحیی اکثر اپنے جد سے روایت کرتا ہے، چنانچہ اگر یہاں واسطہ نہیں لکھا تو مراد یہی ہے کہ انہوں نے اپنے جد کے ذریعے ابوبصیر سے نقل کیا۔ لیکن یہ جواب تب صحیح ہوتا جب قاسم بن یحیی سے تمام روایتیں جد کے ذریعے ہوتیں، لیکن ایسی احادیث بھی ہیں جہاں قاسم بن یحیی اپنے جد کے علاوہ بھی لوگوں سے حدیث نقل کرتے ہیں۔


7) اس سلسلۂ حدیث میں جابر بن یزید جعفی بھی ہیں جن کی وثاقت یا تضعیف علمائے شیعہ میں ہمیشہ اختلافی رہی ہے۔ شیخ نجاشی جابر بن یزید جعفی کو "مختلط" یعنی ضعیف العقیدہ یعنی باطنی تاویلات کرنے والا کہتے ہیں چنانچہ اس کی احادیث قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔



آیت اللہ سیّد صادق الشیرازی کا بیان کردہ سلسلۂ اسناد

آیت اللہ صادق الشیرازی نے بھی ایک سلسلۂ سند نقل کیا ھے اور اس طریق کے راوی وہ خود ہیں۔ یہ سلسلہ کچھ یوں ہے؛

ومن جملة طرقي المذكورة ما أروي بها حديث الكساء الشريف فإني أرويه عن والدي عن الشيخ عباس القمي عن الميرزا حسين النوري عن الشيخ مرتضي الأنصـاري عن المولي أحمد النراقي عن السيد بحر العلوم عن الوحيد البهبهـاني عن أبيه الشيخ محمد أكمل عن المولى محمد باقر المجلسي عن أبيه المولى محمد تقي المجلسي عن الشيخ البهائي عن أبيه الشيخ حسين بن عبد الصمد عن الشهيد الثاني عن أحمد بن محمد بن خاتون عن الشيخ عبد العالي الكركي عن علي بن هلال الجزائري عن أحمد بن فهد الحلي عن الشيخ علي بن خازن الحائري عن ضياء الدين علي بن الشهيد الأول عن أبيه محمد بن مكي العاملي عن فخر المحققين عن أبيه العلامة الحلي عن خاله المحقق الحلي عن ابن نما عن محمد بن إدريس الحلي عن ابن حمزة الطوسي عن محمد بن شهر آشوب عن الطبرسي صاحب الإحتجاج عن الحسن بن محمد بن الحسن الطوسي عن أبيه شيخ الطائفة عن الشيخ المفيد عن الشيخ الصدوق عن أبيه عن علي بن إبراهيم (حيلولة) وعن ابن قولويه عن الشيخ الكليني عن علي بن ابراهيم عن أبيه إبراهيم بن هاشم عن أحمد بن محمد بن أبي نصر البزنطي عن القاسم بن يحيي الجلاء الكوفي عن أبي بصير عن أبان بن تغلب عن جابر بن يزيد الجعفي عن جابر بن عبد الله الأنصاري رضوان الله تعالي عليهم جميعاً عن سيدتنا ومولاتنا الصديقة الكبرى فاطمه الزهراء سلام الله عليها بنت رسول الله صلى الله عليه وآله


اس سلسلہ حدیث میں آیت اللہ صادق الشیرازی نے ان اشکالات کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے جن میں سرفہرست کچھ راویوں کا آپس میں لمبا وقفہ ہے، لیکن ایک اشکال پھر بھی وارد ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ شیخ عبّاس قمّی کا نام انہوں نے اس سلسلے میں لیا جبکہ شیخ عباس قمّی اس روایت پر اعتبار نہیں کرتے تھے، جیسا کہ ان کا بیان اوپر گزرا۔ علاوہ ازیں انہوں نے اس حدیث کساء کو اپنی مشہور کتاب مفاتیح الجنان میں بھی نقل نہیں کیا جبکہ یہ حدیث جس طرح سے شیعہ معاشرے میں رواج پا چکی 
تھی تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ اس کو شامل کرتے تاکہ مؤمنین کو پڑھنے میں آسانی ہو۔


بعد کے مفاتیح الجنان کے ناشرین نے اس حدیث کساء کو مفاتیح کے ضمیمہ جات میں شامل کیا جبکہ خود شیخ عباس قمی اپنی 
زندگی میں ہی اس میں کسی چیز کے اضافے کے حامی نہیں تھے۔


آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی اور دانشگاہ حدیث، تہران کے ڈین جناب آیت اللہ ری شہری صاحب بھی یہ موقف رکھتے تھے کہ حدیث کساء کو شیخ عباس قمی کی کتاب مفاتیح الجنان سے ختم کر دینا چاھئے کیونکہ یہ خیانت ھے کہ ان کی وفات کے بعد ھم ان کی کتاب میں تصرّف کریں۔ جب انہوں نے اس کو نقل کرنے کے قابل نہ سمجھا تو ضمیہ جات کی آڑ میں اس کو شامل کرنے کا کیا فائدہ؟ آیت اللہ ری شہری نے ایران کی وزارت اطلاعات (وزارت ارشاد) کو یہ درخواست کی کہ ناشرین پر اس حدیث کو شامل کرنے پر پابندی لگائی جائے اور موصوف جو کہ خود شاہ عبدالعظیم کے روضے کے متولی ہیں، انہوں نے اس روضے کی مفاتیحوں سے اس روایت کو نکلوا دیا ھے۔



اس کی اسناد ضعیف ہیں تو کیا اس کا پڑھنا جائز ہے؟

وہ حدیث کساء جو ھمارے زمانے میں رائج ہے اور جس کا آج سے کچھ سال پہلے تک کوئی تصوّر نہیں تھا، اس کی اسناد اور اس روایت کا ضعیف ھونا ثابت ھے بلکہ کچھ قرائن سے یہ روایت گڑھی ہوئی لگتی ہے۔ اب اس کا پڑھنا نہ پڑھنا صحیح ھے یا نہیں؟
اس سلسلے میں مجتہدین کی مختلف آراء ہیں، اکثریت بطور رجاء اس روایت کے پڑھنے کو جائز کہتی ھے اور کچھ اس کے پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے کیونکہ اس کا آئمہ(ع) سے صادر ہونا ثابت نہیں اور اس صورت میں اس کا پڑھنا آئمہ(ع) پر کذب و افترا کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بہرحال اس معاملے میں اپنے اپنے مراجع سے رجوع کریں۔


تحریر : "ابو زین الھاشمی"
ادارہ : "تحریک تحفظ عقائد شیعہ"