٭شہادت حسین(ع) پر معرفت کے ساتھ رونا چاھئے٭
ہم گریہ کے مخالف نہیں بلکہ اسے عبادت سمجھتے ہیں لہذا روئیے اور خوب روئیے لیکن یہ گریہ و بکا ان لوگوں کا گریہ و بکا ہو جن کو امام حسین(ع) کی صحیح معرفت ہے، جو ان اصول کا احترام کرنے کے لئے ہر وقت عملی طور پر تیار رہتے ہیں اور جن کے لئے امام حسین(ع) نے خونی کفن پہنا ھا ورنہ مصائب سن کر رو لینا کوئی بڑا کمال نہیں۔ یہ واقعات ہی اس نوعیت کے ہیں کہ ان کو سن کر ہم تو کیا غیروں کے بھی آنسو نکل آتے ہیں۔ واقعات شاھد ہیں کہ خود کوفی و شامی ظلم بھی کرتے جاتے تھے اور روتے بھی جاتے تھے۔
اب انصاف شرط ہے کہ اگر ہم شہادت حسین(ع) سے اس قدر متاثر ہوئے کہ چند آنسو بہا لئے کچھ رسمی ماتم کر لیا تو پھر ہم میں اور اغیار میں فرق کیا رہا؟ افسوس ہے کہ شیعوں کو بچپن سے ہی اس امر کا عادی بنا دیا جاتا ہے کہ وہ رونے کو ہی دین و دنیا کا مآل سمجھیں اگرچہ شہادت حسین(ع) کے دیگر اہم مقاصد اور اغراض پامال ہو جائیں۔
مصائب حسین(ع) پر رونے اور رلانے والی احادیث پر ہمارا ایمان ہے لیکن ان کا منشاء کسی لحاظ سے یہ نہیں ہے کہ شہادت کا مقصود بالذات اور اصل منشاء صرف گریہ و بکاء ہی ہے اور ذاکر و مولوی کو دوسرے مقاصد و اغراض سے کوئی ربط و تعلق ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کہ گریہ و بکا امام حسین(ع) کی شہادت عظمی کی اصلی غرض و غایت کی نشرو اشاعت اور پرچار کا ایک ذریعہ ہے جس کو ہم نے غلطی سے اصل مقصد سمجھ لیا ہے۔
ہم ہر سال محرم کا پہلا عشرہ یا پورا مہینہ یا اس سے زائد عرصہ تک واقعات کربلا کو یاد کر کے روتے ہیں اور رلاتے بھی ہیں، امام بارگاہوں کی آرائش و زیبائش بھی کرتے ہیں اور شربت، شیرینی، چائے، شیرمال وغیرہ جیسے رسوم پر بے دریغ روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ ذاکرین و واعظین کو بھاری بھرکم فیسیں بھی ادا کرتے ہیں لیکن انصاف سے بتائیے کہ ہم محمدی مشن اور حسینی مشن کا کون سا کام کرتے ہیں؟
ہمارے سارے کام یزیدی، ہمارے سارے افعال یزیدی، کیا ایسی حالت میں ہم کو دربار محمدی(ص) یا سرکار حسینی(ع) سے کسی انعام کی امید رکھنی چاھئے؟ محض رونے پیٹنے اور رسوم ظاہری ادا کرنے سے روح محمدی(ص) و روح حسینی(ع) کبھی خوش نہیں ہو سکتی جب تک حسینی مشن کی تکمیل نہ کریں۔
العبد: ابو زین الہاشمی
No comments:
Post a Comment