"حدیث کساء کی اسناد کا ایک تحقیقی جائزہ"
تمھید :
حدیث کساء اصطلاح میں اس حدیث شریف کو کہتے ہیں جو شیعہ سنّی کتب میں تواتر تک پہنچی ہوئی ہے اور جس میں حضرت محمد مصطفی(ص) ایک کساء یعنی چادر میں مولا علی، فاطمہ، حسن و حسین (علیہم السلام) کو جمع کرتے ہیں اور پھر آیۂ تطہیر٭انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطہّرکم تطہیرا٭ (احزاب:33) نازل ہوئی۔
جہاں تک اس واقعے کا تعلق ہے تو یہ یقینا ھوا اور اہل سنّت کے منابع سے بھی ثابت ہے۔ ذیل میں ان کچھ سنّی کتب کا تذکرہ ہے
جہاں اس واقعے کا ذکر ہوا ہے؛
صحیح مسلم : 4 / 1883 ، حدیث : 2424 ، طبعة : بیروت / لبنان
أحمد بن حنبل : المسند : 6 / 292 ، طبع بیروت .
ابن الأثیر : أسد الغابة : 7 / 343 طبع بیروت
ابن المغازلی الشافعی : المناقب : 100 ، طبع بیروت .
ابن حجر : الإصابة : 4 / 568 ، طبع بیروت .
ابن حجر : الصواعق المحرقة : 143 ، طبع القاهرة .
ابن كثیر : تفسیر القرآن العظیم : 3 / 493 ، طبع بیروت .
اگر شمار کرنے پر آئیں تو ایسے منابع بہت ہیں جو ان احادیث کے صحیح ھونے پر اور شہرت پر دلالت کرتی ہیں اور ہم انہی پر اکتفا
کرتے ہیں کیونکہ یہ ھمارے موضوع سے خارج ہے۔
اس حدیث کساء کا بیان جس کو خاص الفاظ کے ساتھ عموما پڑھا جاتا ھے
وہ حدیث کساء جو جابر بن عبداللہ انصاری(ر) سے مروی ھے اور جناب فاطمہ(ع) اس واقعے کو نقل کرتی ہیں، وہ کسی بھی صورت میں ثابت نہیں ھے اور ثابت نہ ھونے کی صورت میں اس کو ان ذوات مقدّسہ سے منسوب کرنا اور اس پر اعتقاد رکھنا جائز نہیں ھے۔ یہ حدیث کساء جو ھمارے ہاں رائج ہے یہ مفاتیح الجنان کے ضمیمہ جات میں مرقوم ھے اور اس حدیث کو شیخ عبداللہ بحرانی
کی کتاب "عوالم العلوم" سے لیا گیا ھے۔
اس روایت کا سلسلۂ سند کچھ یوں ہے؛
رأيت بخطِّ الشيخ الجليل السيّد هاشم، عن شيخه السيّد ماجد البحراني، عن الحسن بن زين الدين الشّهيد الثاني، عن شيخه المقدس الأردبيلي، عن شيخه علي بن عبدالعالي الكركي، عن الشيخ علي بن هلال الجزائري، عن الشيخ أحمد بن فهد الحلّي، عن الشيخ علي بن الخازن الحائري، عن الشيخ ضياء الدين علي بن الشّهيد الأوّل، عن أبيه، عن فخر المحققين، عن شيخه ووالده العلامة الحلّي، عن شيخه المحقق، ابن نما الحلّي، عن شيخه محمّد بن إدريس الحلّي، عن ابن حمزة الطوسي صاحب ثاقب المناقب، عن الشيخ الجليل محمّد بن شهرآشوب، عن الطبرسي صاحب الاحتجاج، عن شيخه الجليل الحسن بن محمّد بن الحسن الطوسي، عن أبيه شيخ الطائفه، عن شيخه المفيد، عن شيخه ابن قولويه القمي، عن شيخه الكليني، عن علي بن إبراهيم، عن أبيه إبراهيم بن هاشم، عن أحمد بن محمّد بن أبي نصر البزنطي، عن قاسم بن يحيي الجلاّء الكوفي، عن أبي بصير، عن أبان بن تغلب البكري، عن جابر بن يزيد الجعفي، عن جابر بن عبداللّه الأنصاري، عن فاطمة الزهراء بنت رسول اللّه صلّى اللّه عليه وآله
٭عوالم العلوم ج11 ص638، شرح احقاق الحق ج 2 ص 554٭
سلسلۂ سند آپ نے ملاحظہ کیا، اب اس پر درج ذیل اشکالات وارد ہوتے ہیں؛
1) یہ سلسلۂ سند اپنی جگہ بالکل انوکھا ہے، اس میں شیخ عبداللہ بحرانی اس روایت کو کئی علمائے شیعہ سے نقل کرتے ہیں۔ جن میں سیّد ھاشم بحرانی، سیّد ماجد بحرانی، شہید ثانی، مقدّس اردبیلی، شیخ جزائری، ابن فہد حلّی، شہید اوّل، فخر المحققین، علاّّمہ حلّی، ابن نما حلّی، ابن ادریس حلّی، ابن حمزہ طوسی، ابن شھر آشوب، علامہ طبرسی، شیخ طوسی، شیخ مفید، ابن قولویہ اور شیخ کلینی جیسے بزرگ شامل ہیں۔ قابل تعجّب بات یہ ھے کہ ان بزرگ شیعہ علماء میں سے کسی نے بھی اس حدیث کو اپنی کتب میں جگہ نہیں دی۔ نہایت حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس حدیث کو یہ بزرگ سینہ بسینہ نقل کرتے رہے اس
حدیث کو ان میں سے کسی بھی بزرگ نے اپنی کتب میں جگہ نہیں دی۔
جو لوگ اس حدیث کی اسناد کو معتبر سمجھتے ہیں وہ عموما ایک یا دو بزرگ کا ذکر کر کے کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ وہ ھر سنی ہوئی حدیث کو رشتۂ تحریر میں لے آئیں، لیکن ان سے میرا سوال یہ ہے کہ یہاں ایک یا دو بزرگ کی بات نہیں ھو رہی بلکہ دس سے زیادہ بزرگوں کا ذکر ہے اور ان میں ھر کوئی صاحب تصنیف رہا ہے اور کئی لوگوں نے تو تصنیفات کے انبار لگائے ہیں۔ ایسا
اتفاق کیسے ھو سکتا ھے کہ یہ حدیث کسی بھی بزرگ کے قلم کے دل میں جگہ نہ بنا سکی؟
یہ بہرحال ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ھے۔
2) آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کی تحقیق کے مطابق یہ روایت اصل کتاب "عوالم العلوم" میں موجود نہیں ھے۔ ایران کے شہر یزد کے سرکاری کتب خانے میں عوالم العلوم کا اصلی نسخہ خود شیخ عبداللہ بحرانی کے ہاتھ کا لکھا ہوا موجود ھے جس میں آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی حفظہ اللہ کے مطابق یہ روایت اصل کتاب میں نہیں بلکہ حاشیے پر موجود ہے۔ اور اس حاشیے پر موجود خط (رائیٹنگ) شیخ عبداللہ بحرانی کے خط سے مختلف ہے اور بخوبی روشن ہوتا ھے کہ یہ روایت بعد میں عوالم العلوم میں شامل کی گئی ہے۔ تفصیلات کے لئے آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی (اعلی اللہ مقامہ) کی کتاب مفاتیح نوین کے صفحہ 1165 کی طرف رجوع کریں۔
3) اس سلسلۂ سند میں کچھ افراد ایک دوسرے سے اسّی 80 سال تک کا فاصلہ بھی رکھتے ہیں اور اس لمبے فاصلے میں ان کا ایک دوسرے سے ملاقات اور حدیث کا سماع ممکن ہی نہیں۔
4) عوالم العلوم سے پہلے یہ روایت کسی بھی معتبر کتاب میں نقل نہیں کی گئی۔ شیخ عبداللہ بحرانی نے کم و بیش علامہ مجلسی کے دور میں یا اس کے بعد عوالم العلوم لکھی تھی۔ مفاتیح الجنان کے مصنّف شیخ عبّاس قمی اور آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کی تحقیق کے مطابق یہ روایت عوالم العلوم سے پہلے صرف "منتخب طریحی" میں نقلی ہوئی اور اس میں بھی بغیر کسی سند کے۔ چنانچہ شیخ عبّاس قمی فرماتے ہیں؛
حدیث معروف به حدیث کساء که در زمان ما شایع است باین کیفیت در کتب معتبره معروفه و اصول حدیث و مجامع متقنه محدثین دیده نشدہ
معتبر اور معروف کتابوں میں اور اصول حدیث میں اس کیفیت کے ساتھ جس طرح سے حدیث کساء ھمارے زمانے میں مروّج ہے، اس کو میں نے کسی بھی مجموعۂ حدیث میں نہیں دیکھا۔
٭منتہی الآمال، ص527٭
اگر عوالم العلوم سے پہلے بھی کسی شاذ کتاب میں اگر ملی بھی ہے تو بغیر کسی سند کے ساتھ جس طرح سے منتخب طریحی میں درج ہے۔
5) اس سلسلۂ حدیث میں قاسم ابن یحیی جلاء کوفی ہے جس کا کوئی ذکر رجال کی کتب میں نہیں، لہذا یہ راوی مجہول ہے اور یہ سند درجۂ اعتبار سے ساقط ہے۔ حدیث کساء کے حامی حضرات یہ کہہ کر اس داغ کو دھونے کی کوشش کرتے ہیں کہ قاسم بن یحیی جلاء کوفی سے مراد یہاں قاسم بن یحیی بن حسن بن راشد ہے جس کا ذکر کتب رجال میں ملتا ھے۔ لیکن اگر آپ یہاں پر قاسم بن یحیی بن حسن بن راشد بھی اگر لے لیتے ہیں تو تب بھی اس کی کوئی خاص توثیق ثابت نہیں ھے بلکہ ابن غضائری نے اس کو ضعیف کہا ہے (رجال ابن غضائری، ص86)۔ علاوہ ازیں علامہ حلی نے اس کو خلاصۃ الاقوال میں اس کو ضعیف کہا ہے۔
6) قاسم بن یحیی جلاء کوفی یہاں پر بغیر کسی واسطے کے ابو بصیر سے نقل کرتا ہے جبکہ دونوں کے زمانے میں ایک پشت کا فاصلہ ہے۔ اس مشکل کو حدیث کساء کے ماننے والے اس طرح رفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قاسم بن یحیی اکثر اپنے جد سے روایت کرتا ہے، چنانچہ اگر یہاں واسطہ نہیں لکھا تو مراد یہی ہے کہ انہوں نے اپنے جد کے ذریعے ابوبصیر سے نقل کیا۔ لیکن یہ جواب تب صحیح ہوتا جب قاسم بن یحیی سے تمام روایتیں جد کے ذریعے ہوتیں، لیکن ایسی احادیث بھی ہیں جہاں قاسم بن یحیی اپنے جد کے علاوہ بھی لوگوں سے حدیث نقل کرتے ہیں۔
7) اس سلسلۂ حدیث میں جابر بن یزید جعفی بھی ہیں جن کی وثاقت یا تضعیف علمائے شیعہ میں ہمیشہ اختلافی رہی ہے۔ شیخ نجاشی جابر بن یزید جعفی کو "مختلط" یعنی ضعیف العقیدہ یعنی باطنی تاویلات کرنے والا کہتے ہیں چنانچہ اس کی احادیث قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔
آیت اللہ سیّد صادق الشیرازی کا بیان کردہ سلسلۂ اسناد
آیت اللہ صادق الشیرازی نے بھی ایک سلسلۂ سند نقل کیا ھے اور اس طریق کے راوی وہ خود ہیں۔ یہ سلسلہ کچھ یوں ہے؛
ومن جملة طرقي المذكورة ما أروي بها حديث الكساء الشريف فإني أرويه عن والدي عن الشيخ عباس القمي عن الميرزا حسين النوري عن الشيخ مرتضي الأنصـاري عن المولي أحمد النراقي عن السيد بحر العلوم عن الوحيد البهبهـاني عن أبيه الشيخ محمد أكمل عن المولى محمد باقر المجلسي عن أبيه المولى محمد تقي المجلسي عن الشيخ البهائي عن أبيه الشيخ حسين بن عبد الصمد عن الشهيد الثاني عن أحمد بن محمد بن خاتون عن الشيخ عبد العالي الكركي عن علي بن هلال الجزائري عن أحمد بن فهد الحلي عن الشيخ علي بن خازن الحائري عن ضياء الدين علي بن الشهيد الأول عن أبيه محمد بن مكي العاملي عن فخر المحققين عن أبيه العلامة الحلي عن خاله المحقق الحلي عن ابن نما عن محمد بن إدريس الحلي عن ابن حمزة الطوسي عن محمد بن شهر آشوب عن الطبرسي صاحب الإحتجاج عن الحسن بن محمد بن الحسن الطوسي عن أبيه شيخ الطائفة عن الشيخ المفيد عن الشيخ الصدوق عن أبيه عن علي بن إبراهيم (حيلولة) وعن ابن قولويه عن الشيخ الكليني عن علي بن ابراهيم عن أبيه إبراهيم بن هاشم عن أحمد بن محمد بن أبي نصر البزنطي عن القاسم بن يحيي الجلاء الكوفي عن أبي بصير عن أبان بن تغلب عن جابر بن يزيد الجعفي عن جابر بن عبد الله الأنصاري رضوان الله تعالي عليهم جميعاً عن سيدتنا ومولاتنا الصديقة الكبرى فاطمه الزهراء سلام الله عليها بنت رسول الله صلى الله عليه وآله
اس سلسلہ حدیث میں آیت اللہ صادق الشیرازی نے ان اشکالات کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے جن میں سرفہرست کچھ راویوں کا آپس میں لمبا وقفہ ہے، لیکن ایک اشکال پھر بھی وارد ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ شیخ عبّاس قمّی کا نام انہوں نے اس سلسلے میں لیا جبکہ شیخ عباس قمّی اس روایت پر اعتبار نہیں کرتے تھے، جیسا کہ ان کا بیان اوپر گزرا۔ علاوہ ازیں انہوں نے اس حدیث کساء کو اپنی مشہور کتاب مفاتیح الجنان میں بھی نقل نہیں کیا جبکہ یہ حدیث جس طرح سے شیعہ معاشرے میں رواج پا چکی
تھی تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ اس کو شامل کرتے تاکہ مؤمنین کو پڑھنے میں آسانی ہو۔
بعد کے مفاتیح الجنان کے ناشرین نے اس حدیث کساء کو مفاتیح کے ضمیمہ جات میں شامل کیا جبکہ خود شیخ عباس قمی اپنی
زندگی میں ہی اس میں کسی چیز کے اضافے کے حامی نہیں تھے۔
آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی اور دانشگاہ حدیث، تہران کے ڈین جناب آیت اللہ ری شہری صاحب بھی یہ موقف رکھتے تھے کہ حدیث کساء کو شیخ عباس قمی کی کتاب مفاتیح الجنان سے ختم کر دینا چاھئے کیونکہ یہ خیانت ھے کہ ان کی وفات کے بعد ھم ان کی کتاب میں تصرّف کریں۔ جب انہوں نے اس کو نقل کرنے کے قابل نہ سمجھا تو ضمیہ جات کی آڑ میں اس کو شامل کرنے کا کیا فائدہ؟ آیت اللہ ری شہری نے ایران کی وزارت اطلاعات (وزارت ارشاد) کو یہ درخواست کی کہ ناشرین پر اس حدیث کو شامل کرنے پر پابندی لگائی جائے اور موصوف جو کہ خود شاہ عبدالعظیم کے روضے کے متولی ہیں، انہوں نے اس روضے کی مفاتیحوں سے اس روایت کو نکلوا دیا ھے۔
اس کی اسناد ضعیف ہیں تو کیا اس کا پڑھنا جائز ہے؟
وہ حدیث کساء جو ھمارے زمانے میں رائج ہے اور جس کا آج سے کچھ سال پہلے تک کوئی تصوّر نہیں تھا، اس کی اسناد اور اس روایت کا ضعیف ھونا ثابت ھے بلکہ کچھ قرائن سے یہ روایت گڑھی ہوئی لگتی ہے۔ اب اس کا پڑھنا نہ پڑھنا صحیح ھے یا نہیں؟
اس سلسلے میں مجتہدین کی مختلف آراء ہیں، اکثریت بطور رجاء اس روایت کے پڑھنے کو جائز کہتی ھے اور کچھ اس کے پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے کیونکہ اس کا آئمہ(ع) سے صادر ہونا ثابت نہیں اور اس صورت میں اس کا پڑھنا آئمہ(ع) پر کذب و افترا کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بہرحال اس معاملے میں اپنے اپنے مراجع سے رجوع کریں۔
تحریر : "ابو زین الھاشمی"
ادارہ : "تحریک تحفظ عقائد شیعہ"
احسنت جزاک الله خیرہ
ReplyDeleteJazak Allah
ReplyDeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDeleteAhsun
ReplyDeleteماشاءاللہ
ReplyDeleteجزاک اللہ خیرا
ReplyDelete