٭علماء کو فتوی دینے میں کن کن عوامل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ آیت اللہ العظمی سیّد محمد باقر درچہ ای مرحوم کی نگاہ میں٭
آیت اللہ العظمی سیّد محمد باقر درچہ ای قاجاری و پہلوی دور میں ایران کے ایک توانا مجتہد رہے ہیں۔ آپ میرزای شیرازی کے شاگرد رشید تھے اور اجتہاد کا ملکہ حاصل کرنے کے بعد اصفہان کو اپنا مستقر بنا لیا۔ آپ نے تگڑے شاگردوں کی تربیت کی جن میں سر فہرست آیت اللہ العظمی سیّد ابوالحسن اصفہانی، آیت اللہ العظمی سیّد حسین بروجردی و آیت اللہ العظمی سیّد حسن مدرّس جیسے نامی گرامی علماء تھے۔ آپ کا تمام علوم اسلامی میں تبحّر اپنی مثال آپ تھا اور آپ بطور روشن فکر معروف تھے۔ خالص اسلامی عقائد خصوصا توحید پر زور دیتے تھے جس کی وجہ سے آپ کے مخالفین میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ آپ کو شاہ ایران رضا خان پہلوی کے حکم پر علی الصبح حمّام میں شہید کیا گیا۔
اس مختصر تعارف کے بعد ہم ان کے افکار سے کچھ اقتباس پیش کرتے ہیں؛
"یہ مت بھولیں کہ آجکل کے دور میں بہت سے اعمال جو جائز سمجھے جاتے ہیں صدر اسلام میں ان کا کوئی اثر نہیں تھا، قدیم علماء ان کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور یہ بھی مت بھولیں کہ ان میں سے اکثر اعمال معاشرہ اور قوم کی عادات و رسومات سے متاثر ہیں۔ پہلے ان اعمال کو بہت معمولی سمجھا گیا اور اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ عادات معمول ہوتے گئے۔ امتداد زمانہ کی وجہ سے ان میں "زیادہ روی" ہوتی رہی یہاں تک کہ اب واضح خلاف شریعت ہے۔ لیکن اب چونکہ یہ اس قدر نفوذ کر چکا ہے، خود علماء بھی اس سے متاثر ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ مرحوم آقا دربندی نے وصیت کی تھی کہ ان کے خون سے تر کفن کو ان کے ہمراہ دفن کیا جائے جس پر انہوں نے قمہ زنی کی تھی۔ جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ میّت کے ساتھ ایک ذرّہ نجاست بھی دفن نہیں ہونا چاھئے، بلا شکّ و تردید خون گیارہ نجاسات میں سے ایک ہے لیکن مرحوم دربندی جو اپنے زمانے میں عوامی عقائد و اوہام کے زیر اثر تھے، اپنی علمیت اور شرعی قابلیت کو اس کے مطابق ڈھال لیا۔
البتہ آپ لوگوں کو یہ بات عجیب نہیں لگنی چاھئے، جب یونانی بت پرستوں کا فلسفہ مسلمانوں کے ہاتھ پہنچا تو انہوں نے کوشش کی کہ اس فلسفے کو شرع، احکام و عقائد اسلامی کے مطابق ڈھالا جائے۔ اور جب یہی فلسفہ عیسائیوں کے ہاتھ لگا تو انہوں نے کوشش کی کہ اس کو حضرت عیسی(ع) کے حواریوں کے اقوال کے مطابق ڈھالا جائے جبکہ یہ تمام حواری متقی، زاھد و عابد تھے اور فلسفہ و علوم یونانی سے ناواقف تھے۔۔۔ ان سب کی وجہ یہ ہے کہ ہم پہلے اپنے اطراف سے دین کو لیتے ہیں اور پھر عالم بنتے ہیں (یعنی عقائد پہلے بن جاتے ہیں اور تحقیق و تعلیم بعد میں کرتے ہیں)۔ بالفاظ دیگر علم کی تلاش سے پہلے، جب انسان کا ذہن بالکل خالی اور سادہ ہوتا ہے، اپنے والدین اور ماحول سے اپنے عقائد و دین کو تشکیل دیتا ہے۔ جب وہ تعلیم حاصل کرنے لگتا ہے تو پہلے سے نقش شدہ عقائد کے مطابق اپنا دین حاصل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء جو ایران کے عادات و اطوار و افکاری ماحول میں رہتے ہیں، ان رسومات و عقائد پر بات نہیں کر سکتے جو شرع کے خلاف ہیں لیکن لوگوں کے عقائد و افکار کے مطابق ہیں۔ اور شاید ان چیزوں کو وہ خلاف شرع بھی نہ سمجھیں کیونکہ وہ اسی محیط میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
مثلا عزاداری امام حسین(ع) میں گریہ و زاری معصومین(ع) سے ثابت ہے، لیکن رفتہ رفتہ اس میں جدّت پیدا ہوتی گئی۔ خصوصا جب ترک اور ایرانی شیعہ ہوئے تو انہوں نے خونی ماتم کا اجراء کیا جو کہیں سے عقلی پیمانے کے مطابق نہیں، اس وجہ سے ہر چیز میں افراط و تفریط شروع ہو گئی، یہاں تک کہ منّت کے نام پر جسم میں سوراخ کر کے تالا باندھتے ہیں یا سلاخیں آر پار کرتے ہیں۔ کیا اس طرح سے خود کو اذیّت دینا عقل و شریعت کے خلاف نہیں؟"
(جایگاہ و اندیشہ ھای روحانی روشنفکر آزاد اندیش آیت اللہ سیّد محمد باقر درچہ ای)
ترجمہ و پیشکش: ابو زین الہاشمی
No comments:
Post a Comment