٭اولاد کی اجداد سے شباہت٭
أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ أَبِي الْخَطَّابِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْلُقَ خَلْقاً جَمَعَ كُلَّ صُورَةٍ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ أَبِيهِ إِلَى آدَمَ ثُمَّ خَلَقَهُ عَلَى صُورَةِ أَحَدِهِمْ فَلَا يَقُولَنَّ أَحَدٌ هَذَا لَا يُشْبِهُنِي وَ لَا يُشْبِهُ شَيْئاً مِنْ آبَائِي
امام جعفر صادق(ع): "جب اللہ تبارک و تعالی کسی انسان کو خلق کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے والد اور آدم(ع) تک تمام آباء و اجداد کی صورتوں کو جمع کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کو ان میں سے کسی کی بھی صورت پر خلق کرتا ہے۔ لہذا تم میں سے کوئی (اپنی زوجہ کے بارے میں بدگمان نہ ہو اور) نہ کہے کہ یہ بچہ مجھ سے نہیں ملتا یا میرے آباء میں سے کسی سے نہیں ملتا (کیونکہ ممکن ہے کہ یہ اس کے اجداد میں سے کسی کی صورت ہو جس کو اس نے کبھی نہ دیکھا ہو)۔"
(علل الشرائع: جلد1 ص103 باب 93)
رجال الحدیث:
شیخ صدوق نے یہ روایت اپنے والد "ابن بابویہ قمّی" سے نقل کی جو ثقہ و جلیل القدر ہیں۔ انہوں نے اپنے شیخ احمد ابن ادریس القمّی سے نقل کیا جو ثقہ ہیں اور جن سے 2826 احادیث کتب اربعہ میں منقول ہیں، پس کثیر الرّوایہ ہیں۔ انہوں نے محمد بن حسین بن ابی الخطاب سے روایت کی جو شیخ نجاشی کے بقول جلیل القدر، کثر الرّوایہ اور مورد اطمینان ہیں۔ انہوں نے جعفر بن بشیر سے نقل کیا جو ثقہ ہیں، لیکن جعفر بن بشیر نے یہ روایت ارسال کے ساتھ امام صادق(ع) سے نقل کی۔۔۔ یہاں "رجل" کا لفظ استعمال ہوا اور رجل کون ہے یہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ جعفر بن بشیر نے ثقات سے بھی نقل حدیث کیا اور غیر ثقات سے بھی، اور ہمیں معلوم نہیں کہ یہاں "رجل" ثقہ ہے یا نہیں۔ لہذا اس میں ارسال پایا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ کسی راوی کا سہو ہو کہ وہ یہاں پر جعفر بن بشیر اور امام صادق(ع) کے درمیان واسطے کو بھول گیا۔
درایۃ الحدیث:
مروّجہ اصطلاحات کے مطابق یہ روایت "مرسل" کہلائے گی۔ لیکن جیسا کہ ہم بہت دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ ہم سند کے ساتھ ساتھ دیگر قرائن کو بھی دیکھتے ہیں اور وثوق صدوری کے قائل ہیں۔ جب اس روایت پر غور کرتے ہیں تو اس کے تمام روات اجلاّء و ثقات سے مروی ہیں، جس سے وثوق بڑھ جاتا ہے۔ لیکن جب اس روایت کے مضمون اور اس کے متن میں غور کرتے ہیں تو یہ یقین مزید بڑھ جاتا ہے۔
جدید سائنس نے اس بات کی تائید کی ہے کہ اولاد اپنے پدری و مادری اجداد میں سے کسی پر بھی جا سکتا ہے۔ *Genetic Science* ایک باقاعدہ علم ہے جس میں جینیات پر بات کی جاتی ہے، لہذا یہ ایک سائنسی اصول ہے جس کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے۔
یہ حدیث نہ صرف یہ کہ مورد قبول ہے بلکہ ہمارے لئے افتخار کا باعث ہے کہ جس چیز پر آج جدید سائنس برسوں کی محنت اور ہزاروں محققّین کی تحقیقات سے پہنچے، وہ آج سے تیرہ سو سال پہلے ہمارے مولا و آقا امام جعفر صادق(ع) بتا چکے ہیں اور بیان کر چکے ہیں۔ اس بات سے ہمارا ہمارے آئمہ(ع) اور ان کے علوم لدنّی پر ایمان بڑھ جاتا ہے، لہذا ایسی روایتوں کی اسناد میں کوئی اشکال بھی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
اللہ تعالی ہمیں توفیق دے کہ ہم محمد و آل محمد(ص) کی تعلیمات کو بہتر انداز میں سمجھیں اور دعا ہے کہ ان کی محبّت و ولایت کو ہمارے دلوں میں مزید پختہ کرے۔
والسّلام علی من اتبع الھدی
العبد: ابو زین الہاشمی
No comments:
Post a Comment