٭مقتل ابو مخنف٭
جو لوگ واقعات کربلا کا مطالعہ رکھتے ہیں ان کے لئے ابو مخنف کا نام غیر مانوس نہیں ہے۔ ابو مخنف کا نام لوط بن یحیی تھا جو ایک مشہور تاریخ دان تھا۔ مؤرخین نے ابو مخنف لوط بن یحیی پر تاریخ میں بہت اعتماد کیا ہے۔ ابو مخنف ایک شیعہ مؤرخ تھا اور امام صادق(ع) کے اصحاب میں شمار ہوتا تھا، اس نے امام صادق(ع) سے روایات بھی نقل کی ہیں۔ شیخ نجاشی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ابو مخنف کوفہ میں مؤرّخین کے استاد ہیں اور سب کے لئے مورد اعتماد ہیں۔ انہوں نے کئی کتب لکھیں جن میں سب سے مشہور "مقتل الحسین" ہے، یہ ابتدائی معتبر مقاتل میں سے ہے۔
لیکن بدقسمتی سے اس وقت یہ کتاب ہمارے پاس مکمّل نہیں پہنچی۔ جو کـچھ بھی ہم تک پہنچا ہے وہ تاریخ طبری، تاریخ کامل و تاریخ دمشق و دیگر معتبر تاریخ کی کتب سے پہنچا ہے۔ امام طبری نے ابو مخنف پر بہت اعتماد کیا ہے اور مقتل الحسین سے حوادث کربلا لکھے۔ گویا ان قدیم مؤرخین کے پاس ابو مخنف کی مقتل الحسین موجود تھی۔ کچھ عرصہ پہلے تاریخ طبری میں سے ابو مخنف کی روایات کو جمع کر کے کتابی شکل میں قم سے چھپوایا گیا، لیکن یہ تمام مقتل الحسین نہیں ہے بلکہ اس کا ایک حصّہ ہے۔
لیکن ایک اور کتاب "مقتل ابی مخنف" کے نام سے گردش کر رہی ہے جو بمبئی، بعداد، نجف اور ایران سے متعدد دفعہ چھپی ہے۔ یہ جعلی مقتل بحارالانوار کی قدیم جلد نمبر 10 کے ساتھ ناصر الدّین شاہ قاجار کے دور میں چھپی بھی چھپی تھی۔ یہ ابو مخنف لوط بن یحیی کی تالیف ہرگز نہیں کیونکہ تاریخ طبری میں جو کچھ ابو مخنف سے نقل ہوا ہے وہ اس جعلی مقتل سے بہت مختلف ہے، علاوہ ازیں اس میں ایسی باتیں ہیں جن کا باطل ہونا عیاں ہے۔ علماء نے بھی اس مقتل پر اعتماد نہیں کیا۔
علامہ نوری طبرسی اپنی مشہور کتاب لؤلؤ و مرجان میں ص156 میں فرماتے ہیں: "ابو مخنف لوط بن یحیی بزرگ محدّثین و اہل سیر و تواریخ سے ہیں، ان کی مقتل انتہائی معتبر ہے جیسا کہ قدیم مشہور علماء اور ان کی تالیفات سے معلوم ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ اصل مقتل جو تمام عیب سے پاک ہو ہم تک نہیں پہنچی ہے۔ اس وقت وہ مقتل جس کی نسبت ابو مخنف سے دیتے ہیں، کئی منکرات اور مسلّمات اصول مذہب کے خلاف ہے اس لئے درجۂ اعتبار و اعتماد سے خارج ہے۔ جہاں یہ مقتل منفرد ہو ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس مقتل میں کئی کمی بیشی واضح نظر آتی ہے۔"
شیخ عباس قمّی نفس المہموم کے ابتدا میں فرماتے ہیں: "لوط بن یحیی ابو مخنف متوفای 157 ہجری، ایک معتبر مؤرخ ہے اور اس کی کتاب مقتل الحسین بھی علماء کے نزدیک معتبر اور مورد اعتماد ہے۔ لیکن یہ مقتل جو آج ہمارے ہاتھ ہے اور اس کی نسبت ابو مخنف سے دی جاتی ہے، یہ مورد اعتماد ابو مخنف کی نہیں اور نہ کسی اور معتبر مؤرخ کی تصنیف ہے۔"
آیت اللہ صالحی نجف آبادی فرماتے ہیں کہ ہم نے اس مقتل، جس کو ابو مخنف سے منسوب کیا جاتا ہے، کا موازنہ تاریخ طبری سے کیا، اور ان دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق پایا۔ یہ جعلی مقتل کافی عرصہ پہلے فارسی میں ترجمے کے ساتھ چھپی ہے جس کے شروع میں مترجم ابو مخنف لوط بن یحیی کے احوال لکھتا ہے جس سے یہ لگتا ہے کہ واقعی یہ ابو مخنف کی مقتل ہے۔ یہ مقتل عام عوام کے ہاتھ میں پہنچتی ہے اور اہل منبر جو روایات پڑھنے میں کسی قسم کا تدبّر نہیں کرتے، ان کے لئے یہ نعمت سے کم نہیں اور وہ اس میں سے مطالب عوام میں شائع کرتے ہیں۔ اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ جعلی مقتل اردو میں بھی ترجمہ ہو چکی ہے جس کے شروع میں مترجم ٹائٹل کے ساتھ لکھتا ہے "قدیم ترین مقتل کی کتاب"۔
یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ فاضل دربندی نے "اسرار الشہادہ" میں اور سپہر نے "ناسخ التواریخ" میں اسی جعلی مقتل پر کافی انحصار کیا ہے۔ اسی لئے ان دونوں کتب میں جعلی مصائب و مقاتل بہت فراوان ہیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ابو مخنف کی روایات میں وہی معتبر ہیں جو تاریخ طبری سمیت دیگر قدیم تواریخ میں موجود ہے، اور اس وقت جو مقتل ابی مخنف گردش کر رہی ہے وہ مورد اعتماد نہیں۔
تحریر: ابوزین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ
No comments:
Post a Comment