سوال) ایک حدیث کافی مشہور ہے علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین کیوں نہ جانا پڑے، یہ حدیث ہماری کتب میں کہاں کہاں موجود ہے؟ اور کیا اس حدیث پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟
جواب) یہ حدیث بحارالانوار میں روضۃالواعظین سے ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے؛
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص اطْلُبُوا الْعِلْمَ وَ لَوْ بِالصِّينِ فَإِنَّ طَلَبَ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِم
رسول اللہ ص نے فرمایا: علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے کیونکہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
(بحارالانوار: ج1 ص180، روضۃ الواعظین: ج1 ص18)
اس حدیث کی اصل جڑ روضۃ الواعظین ہے جہاں سے یہ مختلف کتب میں نقل ہوئی۔ بحارالانوار کے علاوہ علامہ طبرسی نے مشکاۃ الانوار، ابن ابی جمہور احسائی نے عوالی اللئالی، شہید ثانی نے منیۃ المرید میں، ملاّ صدرا اور ملاّ صالح مازندرانی نے اپنی شروح کافی میں اور شیخ حرّعاملی نے وسائل الشیعہ میں نقل کیا ہے۔
یہ حدیث مصباح الشریعہ میں امام علی ع سے ان الفاظ کے ساتھ بھی نقل ہوئی ہے؛
وَ قَالَ عَلِيٌّ ع اطْلُبُوا الْعِلْمَ وَ لَوْ بِالصِّينِ وَ هُوَ عِلْمُ مَعْرِفَةِ النَّفْسِ وَ فِيهِ مَعْرِفَةُ الرَّبِّ عَزَّ وَ جَل
امام علی(ع): علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے، اور علم سے مراد اپنے نفس کی معرفت ہے اور اسی میں اپنے رب عزّوجل کی معرفت پنہان ہے۔
(مصباح الشریعہ: ص13 باب الخامس فی العلم)
مصباح الشریعہ کی اس روایت کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار ج2 ص34 پر بھی نقل کیا ہے۔ یہاں پر مصباح الشریعہ کے حوالے سے تھوڑی گفتگو کریں گے۔ اس کتاب مصباح الشریعہ کو امام صادق ع سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن حق تو یہ ہے کہ یہ کسی شیعہ عالم کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے امام صادق ع کی احادیث نقل کی ہیں۔
شیخ کفعمی نے مجموع الغرائب میں کثرت سے مصباح الشریعہ سے نقل کیا ہے۔ شہید ثانی نے کشف الریبہ، منیۃ المرید، مسکن الفوائد، اور اسرار الصّلاہ میں اس کتاب سے کثرت سے نقل کیا ہے اور احادیث کو قطعی طور پر امام صادق ع سے نسبت دی ہے۔ سیّد ابن طاؤوس نے کتاب "الامان" میں مصباح الشریعہ کی بہت تعریف کی ہے، اور کہا ہے کہ ہر مسافر اپنے ساتھ اس کتاب کو ضرور رکھے کیونکہ اس میں اللہ کی طرف سیر و سلوک کے طریقے ہیں اور اس کتاب کے ہمسفر ہونے سے انسان اللہ کی یاد کو فراموش نہیں کرتا۔
اس کے علاوہ کچھ علماء نے اس کتاب پر اعتبار نہیں کیا۔ ان کے دلائل یہ ہیں؛
1) اس کی روایات مرسل ہیں
2) اس کا مصنّف معلوم نہیں
3) اس کے مضامین تصوّف سے مشابہت رکھتے ہیں
4) اس روایت کا اسلوب معصومین ع کی دیگر احادیث کی طرح نہیں (بحارالانوار: ج1 ص32)
اس کتاب کی روایات کا مرسل ہونا یا اس کے مصنّف کا معلوم نہ ہونا ضرر نہیں پہنچاتا کیونکہ تمام روایات اخلاقی ہیں جیسے زھد، قناعت، شکر، غیبت و ریاکاری و تکبّر و حسد اور طمع کی مذمّت۔۔۔۔ علاوہ ازیں روزمرّہ کے آداب و سنن جیسے بیت الخلاء کے آداب، وضو اور نماز کے آداب وغیرہ۔ ان روایات میں سند کا ضعف کسی نقصان کا باعث نہیں بشرطیکہ مسلّمات و عقل سلیم سے متصادم نہ ہو۔
جہاں تک تصوّف سے مشابہت کی بات ہے تو مخفی نہ رہے کہ اہل تصوّف کے پیش نظر دو چیزیں ہیں۔ تہذیب و تزکیۂ نفس، عبادت و ریاضت، مجاہدہ و تفکّر و مشاہدہ۔۔ یہ چیزیں جائز ہیں اور علمائے کرام نے بھی ان بہترین چیزوں پر توجّہ کی ہے۔ تصوّف کی مذمّت کی آڑ میں ان چیزوں کی مذمّت روح اسلام سے عدم واقفیت کی علامت ہے۔ بعض ذہنی طور پر پسماندہ لوگوں نے سید ابن طاؤوس، شہید ثانی و امام خمینی پر صوفی گری کی تہمت اسی لئے لگائی ہے۔
تصوّف میں جو کمالات و منازل بتائے جاتے ہیں اور باطل عقائد رکھے جاتے ہیں جیسے حقیقت محمپدیہ و وحدت الوجود و اتّحاد و حلول جو شدید مذموم ہیں۔ علاوہ ازیں تصوّف کی اصل مذمّت کی ایک وجہ رہبانیت ہے، تصوّف میں دنیا کو ترک کرنے پر زور ہے جو شریعت میں شدید مذموم ہے۔ تصوّف کی یہی باتیں ناقابل قبول ہیں ورنہ تصوّف میں جو چیزیں اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہیں ان کو اپنانے میں حرج نہیں بلکہ ان کو اپنانا واجب ہے تاکہ کمالات روحانی و معنوی حاصل ہوں۔
لہذا مصباح الشریعہ کی وہ روایات جو عقل و نقل سے متصادم نہ ہوں اور بہترین اخلاقی تربیت کرتے ہیں ان کو نقل کرنے اور قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
پس "علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے" یہ حدیث قبول کرنے میں حرج نہیں، بلکہ یہ روایت اسلام کے بنیادی حکم "علم کی فرضیت" کے عین مطابق ہے۔
واللہ اعلم
العبد: ابوزین الہاشمی
میں نے کسی عالِم سے سنا تھا کہ چین نہیں اصل میں سین ہے؟
ReplyDeleteمیں نے کسی عالِم سے سنا تھا کہ چین نہیں اصل میں سین ہے؟
ReplyDelete