Tuesday, February 11, 2014

کیا گناہوں کی سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے؟

سوال) کیا گناہوں کی سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ بیماریوں سے گناہ دھلتے ہیں، اس سے کیا مراد ہے؟


جواب) یہ دنیا جزا و سزا کی جگہ نہیں بلکہ دارالاعمال ہے۔ یہ دنیا دارالامتحان بھی ہے جس میں نیک اور بد، سعید و بدبخت آپس میں جدا ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں آپ اگلے جہاں کے لئے کھیتی کرتے ہیں (الدّنیا مزرعۃ الآخرہ)۔۔۔ آخرت میں اس کا پھل یا اس کی سزا ملتی ہے۔ کوئی گناہ نہیں ہے جس کی سزا اس دنیا میں ملتی ہے، حکیم الامّت امام خمینی نے اس بات کی سختی سے مذمّت کی ہے۔

بیماری سے گناہ جھڑنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی انسانوں کو اس دنیا میں آزماتا ہے، سخت بیماری بھی آزمائش ہوتی ہے، اگر وہ شخص مومن ہوگا تو اللہ کے مزید قریب ہوگا، اللہ سے توبہ کرے گا اور عبادت کی طرف راغب ہوگا، بیماری میں گناہ سے متنفر ہوگا۔ بیماری کی صورت میں وہ توبہ کرے گا تو یقینا اس کے گناہ جھڑیں گے، عبادت کی طرف راغب ہوگا اور توبہ کرے گا تو یقینا درجات بلند ہوں گے۔

البتہ اللہ تعالی اپنے خاص بندوں کو اس دنیا میں آزماتا ہے، اور ان پر مختلف بلائیں آتی ہیں تاکہ ان کے درجات بلند ہوں۔ دنیا میں غرق ہونا اور اس کی لذّات میں کھو جانا انسان کے اندر دنیا کی محبّت پیدا کر دیتی ہے اور وہ اللہ کی اطاعت اور دار آخرت کو بھول جاتا ہے۔ جبکہ اس دنیا میں مشکلات، آفات اور سختیاں انسان کو دنیا سے متنفّر کر دیتی ہے اور اگر وہ اللہ سے تھوڑی بہت بھی قربت رکھتا ہو وہ آخرت کی فکر کرنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے خاص بندے مشکلات میں رہتے ہیں اور مختلف آفات و بلیّات ان پر پڑتی رہتی ہیں۔ دنیا سے دوری یا مشکلات بھی اللہ کی طرف سے رحمت ہے، اگر ہم سمجھ سکیں۔

امام باقر(ع) فرماتے ہیں: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَيَتَعَاهَدُ الْمُؤْمِنَ بِالْبَلَاءِ كَمَا يَتَعَاهَدُ الرَّجُلُ أَهْلَهُ بِالْهَدِيَّةِ مِنَ الْغَيْبَةِ وَ يَحْمِيهِ الدُّنْيَا كَمَا يَحْمِي الطَّبِيبُ الْمَرِيض۔۔۔۔ یعنی اللہ عزّوجل مرد مؤمن کو بلاؤں کے ذریعے دوست رکھتا ہے جیسے کوئی شخص اپنی بیوی کے لئے سفر سے تحفہ لاتا ہے۔ اور اس کو دنیا سے بچنے کے لئے اسباب مہیّا کرتا ہے جیسے کوئی طبیب کسی مریض کو پرہیز بتاتا ہے۔ (اصول کافی: ج2 ص255)

امام صادق(ع) فرماتے ہیں: إِنَّ عَظِيمَ الْأَجْرِ لَمَعَ عَظِيمِ الْبَلَاءِ وَ مَا أَحَبَّ اللَّهُ قَوْماً إِلَّا ابْتَلَاهُم۔۔۔ بے شک اجر عظیم بڑی بلاؤں اور سختیوں کے ساتھ ہے، اور جس کو اللہ دوست رکھتا ہے اس کو اللہ سختیوں اور بلاؤں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (اصول کافی: ج2 ص252)

چنانچہ کسی مومن کی سختیاں اس پر عذاب نہیں، نہ کسی گناہ کا نتیجہ ہے، بلکہ یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالی اس کو دوست رکھتا ہے اور آزمائش کے ذریعے اس کے اجر میں اضافہ کرتا ہے۔ چنانچہ دنیا میں آزمائش ممکن ہے لیکن کسی قسم کا عقاب یا عذاب نہیں ہے۔

دنیا دار عمل ہے، اس دنیا میں عمل ہے اور اس کا پھل آخرت میں ہے۔ یہ اسلام کا فلسفۂ آخرت ہے۔ البتہ کچھ جرائم ہوتے ہیں جن کے کچھ نتائج دنیا میں ہی ہوتے ہیں، جن کو ہم "کیفر" کہتے ہیں۔۔۔ مثلا کہتے ہیں کہ فلاں کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ مثلا شرابخواری گناہ ہے، اس کا مرتکب توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن سزا پائے گا لیکن کثرت سے شرابخواری کے نتائج اس کو اس دنیا میں بھگتنے ہوں گے کیونکہ شراب جسم اور روح کو تباہ کر دیتا ہے، یہ اعصاب کو خراب کر دیتا ہے اور جگر و دیگر اعضاء کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ اگر وہ توبہ کے باوجود ان عوارض میں مبتلا ہو جائے تو اس کو کہتے ہیں کہ وہ شخص کیفر کردار کو پہنچا، اس نے اس دنیا میں بھی اس گناہ کے آثار دیکھ لئے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی اصل سزا میں کسی قسم کی کوئی تخفیف ہوئی۔ وہ آخرت میں اس کی مکمّل سزا پائے گا اگر صدق دل سے توبہ نہ کرے۔

یا مثلا جنسی انحرافات کا نتیجہ ایڈز یا دیگر بیماریوں کی شکل میں انسان بھگتتا ہے، اور بعض معاشروں میں بدنامی کی صورت میں۔

ایک اور مثال دیتا ہوں کہ کوئی شخص زہر کھا رہا ہو، ہم اس کو روکیں کہ زہر کھانے سے مر جاؤ گے۔ لیکن وہ پھر بھی کھائے جس کی نتیجے میں وہ مر جائے۔۔ اس پر کوئی شخص کہے کہ اس کا گناہ کچھ سیکنڈوں کا تھا کیونکہ زہر کھانے میں کچھ سیکنڈ ہی لگیں گے لیکن اس کو اتنی بڑی سزا ملی کہ وہ مر گیا۔۔۔ یہ اعتراض باطل ہوگا کیونکہ زہر کھانے کی صورت میں مرنا معلول ہے۔ زہر کھانے کا نتیجہ موت ہے، اس کو ہم خودکشی کی سزا نہیں کہہ سکتے۔ اس کے اس عمل کا نتیجہ مرنا تھا، سو وہ مر گیا۔۔۔ لیکن اس کو خودکشی کی سزا قیامت کے دن ملے گا۔

ایک اور مثال لیں! کوئی شخص قتل پر قتل کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر *Chain killer* ہے۔ قتل کرنا گناہ ہے، اور وہ قتل کرتا جاتا ہے۔ اس کے اس عمل کا نتیجہ اس دنیا میں کیا ہوگا؟ وہ پکڑا جائے گا اور پولیس اس کو پھانسی دے گی یا عمر قید کی سزا ۔۔۔۔ اس کو مکافات عمل کہتے ہیں یا ہم یوں کہیں گے کہ وہ کیفر کردار تک پہنچ گیا۔ اس نے اپنے عمل کا نتیجہ دیکھ لیا، لیکن یہ اس کے گناہوں کی سزا نہیں ہے۔ اس نے کئی قتل کئے لیکن اس کو سزا ایک قتل کی صورت میں ملی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، یہ دنیا دار عمل ہے۔ ابھی اس نے اعمال انجام دیئے ہیں، اس کی سزا اس کو آخرت میں ملے گی لیکن ان اعمال کا جو نتیجہ مرتّب ہونا تھا وہ بھی اس نے دیکھ لیا۔

اب اگر فرض کریں کہ وہ قاتل نہیں پکڑا جاتا، یا وہ اتنا عقلمند تھا کہ اپنے جرائم کا نشان تک نہیں چھوڑا۔ اب کیا کہیں گے؟؟؟ کیا یہی خدا کا عدل ہے کہ ایک شخص پکڑا جاتا ہے اور کیفر کردار کو پہنچتا ہے اور ایک شخص دندناتا پھرتا ہے؟ ہرگز نہیں، اللہ کا اصل عدل تو قیامت کے دن ہوگا۔۔۔ باقی کوئی اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھ لیتا ہے اور کوئی نہیں دیکھتا، اس کا اس کی سزا سے تعلق نہیں ہے

مثلا ایک آمر و جابر بادشاہ ہے، کتنے ظالم حکمران ایسے ہیں جنہوں نے اپنے عمل کا نتیجہ اس دنیا میں دیکھا۔ عوام ان کے خلاف کھڑی ہوئی یا ان کو بھی اس عمل کی سزا ملی۔ جیسے صدّام حسین! اس شخص نے ہزاروں لوگوں کو قتل کیا اور لاکھوں پر اس نے ظلم کے پہاڑ توڑے۔ آخر خود رسواکن انداز میں پکڑا گیا، اور کیفر کردار تک پہنچا۔ لیکن اس کو ابھی اپنے اعمال کی سزا نہیں ملی۔ یہ تو اس نے اپنے عمل کا نتیجہ دیکھا ہے۔ کسی کو مارو گے یا ظلم کرو گے تو آپ کو بھی جواب ملے گا۔

لیکن اس کے برعکس کتنے ظالم حکمران ایسے ہیں جو ساری زندگی ظلم کرتے رہے اور بغیر کوئی نتیجہ دیکھے اس دنیا سے چلے گئے۔ 

مندرجہ ذیل قرآنی آیات میں اسی طرف اشارہ ہے؛

لَّهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَقُّ ۖ وَمَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِن وَاقٍ 

(سُوۡرَةُ الرّعد:٣٤)

ان کے لئے زندگانی دنیا میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو اور زیادہ سخت ہے اور پھر اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہے

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ 

(سُوۡرَةُ النُّور:١٩)

جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ صاحبانِ ایمان میں بدکاری کا چرچا پھیل جائے ان کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اللہ سب کچھ جانتا ہے صرف تم نہیں جانتے ہو

دنیا میں دردناک عذاب سے مراد بدکاری کی صورت میں سخت سزائیں ہیں جو یقینا انسان کی برداشت سے زیادہ ہیں۔

والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ

العبد: ابوزین الہاشمی

3 comments:

  1. Salam

    kiya apko email kay zaryie sawaalat bhejay jaa saktay hain?
    app ka email kiya hay sawalaat bhejnay kay liye?

    ReplyDelete
    Replies
    1. اگر آپ فیس بک استعمال کرتی ہیں تو مجھ سے اس آئی ڈی پر سوال کر سکتی ہیں؛

      https://www.facebook.com/abuzain.alfatimi

      اور یہ میرا پیج بھی ہے؛

      https://www.facebook.com/abuzainalhashimi

      Delete